شفیق خلش :::::وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں::::Shafiq-Knalish

طارق شاہ

محفلین
غزل
وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں
اگرچہ عُمر سے اِک دوست کر لیا تھا تمھیں

رَہے کچھ ایسے تھے حالات، مَیں سمجھ نہ سکا!
پِھر اُس پہ، عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا تمھیں

کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا مجھے
خُدا ہی جانے، جو آشفتہ سر لیا تھا تمھیں

اگرچہ مشورے بالکل گراں نہیں تھے، مگر!
تھی نَوجَوانی، اور اُلفت نے دھر لیا تھا تمھیں

کسی بھی طَور قیامت سے کم نہیں تھا ، کہ اِک
نِگاہِ ناز سے، تسخیر کر لیا تھا تمھیں

کم محوِیَت سے مَیں سُنتا تھا مشورے سارے
عَمل بھی کرتا تو، سنجیدہ گر لیا تھا تمھیں

حَواس باختہ رکھتا تھا سامنا میرا
مِرے جمال نے، دِیوانہ کرلیا تھا تمھیں

خلش کو جیسے رچایا تھا دھڑکنوں میں مُدام
کُچھ ایسا اُس نے بھی سانسوں میں بھر لیا تھا تمھیں

شفیق خَلِؔش
 
Top