طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلشؔ
حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!
انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں
جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی !
غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں
خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی
کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں
محبّتوں میں عِنایت کا اِنتہائی مزہ
برابری کی وَدِیعت میں ہے ترس میں نہیں
سعید عید ہو آمد پہ اُن کی سچ ہے، مگر!
خوشی ہر روز کے مِلنے کی وہ، برس میں نہیں
زمانہ جِیت کی تشہِیر چاہے جِتنی کرے
ہزار ظلم وسِتم پر بھی ٹس سے مس مَیں نہیں
بیانِ وصف وہ غُنچہ دَہن کا کیا ہو، بجُز!
لبوں سی اُس کی حلاوت پَھلوں کے رس میں نہیں
و طن سے دُور ہُوں، آزاد و بےخطر بالکل
خدا کا شکر ہے، صد شکر، مَیں قفس میں نہیں
کنارِ آب مَعِیّت میں گُل کی یُوں ہُوں خلشؔ
کہ لُطفِ بادِ مُعطّر تو خاک و خس میں نہیں
نشاطِ زِیست میسّر بہ وصلِ یار خلشؔ
ہزار کوششِ دُنیا تہس نہس مَیں نہیں
شفیق خلشؔ
۱۹ اکتوبر ۲۰۲۲
مِیلان، اٹلی
شفیق خلشؔ
حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!
انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں
جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی !
غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں
خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی
کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں
محبّتوں میں عِنایت کا اِنتہائی مزہ
برابری کی وَدِیعت میں ہے ترس میں نہیں
سعید عید ہو آمد پہ اُن کی سچ ہے، مگر!
خوشی ہر روز کے مِلنے کی وہ، برس میں نہیں
زمانہ جِیت کی تشہِیر چاہے جِتنی کرے
ہزار ظلم وسِتم پر بھی ٹس سے مس مَیں نہیں
بیانِ وصف وہ غُنچہ دَہن کا کیا ہو، بجُز!
لبوں سی اُس کی حلاوت پَھلوں کے رس میں نہیں
و طن سے دُور ہُوں، آزاد و بےخطر بالکل
خدا کا شکر ہے، صد شکر، مَیں قفس میں نہیں
کنارِ آب مَعِیّت میں گُل کی یُوں ہُوں خلشؔ
کہ لُطفِ بادِ مُعطّر تو خاک و خس میں نہیں
نشاطِ زِیست میسّر بہ وصلِ یار خلشؔ
ہزار کوششِ دُنیا تہس نہس مَیں نہیں
شفیق خلشؔ
۱۹ اکتوبر ۲۰۲۲
مِیلان، اٹلی
آخری تدوین: