شفیق خلش ::::ہُنر میں اُن سے کوئی اور کیا مَہا ہوگا:::::shafiq khalish

طارق شاہ

محفلین
غزل

عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا
وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا

یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا
کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا

جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا!
وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا

ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی، اس پہ کیا تکرار
وُرُودِ صُبح پہ دِل نے تو کُچھ کہا ہوگا

خیال آئے یہ فُرقت کی ہچکیوں پہ ضرُور
ہمارا ذکر کسی سے وہ کر رہا ہوگا

رہائی سے تِری موقوف ہے حیات مِری
فراق تجھ سے، کب اے دردِ اِنتہا ہوگا

مَلال و حُزن بس اِس سوچ پر ہوختم، خلشؔ!
ہمارے ہاتھ وہی وقتِ بے بہا ہوگا

قلیل گوئی سے پُہنچے کمال پر ہیں خلشؔ
ہُنر میں اُن سے کوئی اور کیا مَہا ہوگا

شفیق خلشؔ​
 

ارشد رشید

محفلین
طارق شاہ صاحب آپکے پسندیدہ شاعر شفیق خلش گو کہ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ ہُنر میں اُن سے کوئی اور کیا مَہا ہوگا
مگر دراصل ابھی انکا کلام ناپختہ ہے - اس میں زبان و بیان کی کافی غلطیاں ہیں -
 

ارشد رشید

محفلین
جناب میں نے فہم یا علم کی بات ہر گز نہیں کی تھی جو کہ سب کا اپنا اپنا ہوتا ہے - میں نے تو زبان و بیان کی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا تھا جو سب کے لیے ایک ہی ہیں -
 
Top