شفیق خلش :::::قربان حسرتوں پہ کبھی دِل کی چاہ پر:::::Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلشؔ
قربان حسرتوں پہ کبھی دِل کی چاہ پر
لا پائے خود کو ہم نہ کبھی راست راہ پر

اِک معتبر خوشی نہیں یادوں کی آہ پر
نادم نہیں ہیں پھر بھی ذرا تیری چاہ پر

ٹہلے نہ یُوں گلی سے عقُوبت کے باوجُود
آنکھیں ہی جَم گئی تھیں رُخِ رشکِ ماہ پر

حاصِل پہ اِطمینان کب اِک تِیرِ غم کو تھا !
برسے سب بار بار مجھ آماجگاہ پر

راہیں جُدا جُدا ہُوئیں احسان کے بغیر!
راحت نصیب تھا مَیں، نہ ہی وہ نِباہ پر

واقف نہیں ہم ایسے سُخن ور سے، جو کبھی!
پُھولے نہیں سمایا ہو سامع کی واہ پر

رہ جائے سب یہیں پہ جب اعمال کے سِوا
اِترائے کیا جہاں میں کوئی حشم و جاہ پر

مُمکن نہیں شُمار عنایات کا تِری!
گُلپاشی بھی رہے مِری آرام گاہ پر

پیشِ نَظر سَبھی کے تھے خدشاتِ غم، خلشؔ!
باز آئے عِشق سے نہ کسی اِنتباہ پر

امواتِ بے حسی کی شرح دیکھ کر ، خلشؔ
خوش ہیں دیارِ غیر میں رب کی پناہ پر

شفیق خلشؔ
 
Top