جلیل حسن جلیلؔ (مانکپوری) :::: چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے-- Jaleel Hasan Jaleel Manakpoori

طارق شاہ

محفلین
غزل
جلیل حسن جلیؔل

چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے!
آپ، جب آئے قیامت ہی اُٹھاتے آئے

نالۂ گرم نے، اِتنا نہ کِیا تھا رُسوا
اشک کمبخت تو، اور آگ لگاتے آئے

دِل کو مَیں اُن کی نِگاہوں سے بچاتا، کیونکر
دُور سے، تِیر نِشانے پہ لگاتے آئے

آئے ہم سُوئے قَفس ، چھوڑ کے جب گُلشن کو
آہ سے آگ نشیمن میں لگاتے آئے

طے ہُوئی آہ کی تائید سے منزِل اپنی!
جا بجا راہ میں، ہم شمع جلاتے آئے

اِس غَرض سے، کہ نہ دیکھے کوئی صُورت اُن کی!
خِرمَنِ ہوش پہ بِجلی وہ گِراتے آئے

اُن کی کیا بات، جو ہنس ہنس کے لَبِ رنگِیں سے!
پُھول برسانے گئے باغ لگاتے آئے

آئے محفِل میں وہ اُلٹے ہُوئے چہرے سے نقاب
دَولَتِ حُسنِ خُداداد لُٹاتے آئے

چال تھی مست، نظر مست، ادا مست
ذرّے ذرّے کو وہ میخانہ بناتے آئے

جلیل حسن جلیلّ مانکپوری
 
Top