طارق شاہ
محفلین
غزل
اقبال عظیم
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں
مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں
یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں!
آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں
آپ اِس درجہ افسُردہ خاطِر نہ ہَوں، آپ کوئی اَثر اپنے دِل پر نہ لیں
مَیں نے جو کُچھ کہا، اِک فسانہ کہا! اور فسانے کی کوئی حَقِیقت نہیں
ایسی محفِل میں شِرکت سے کیا فائدہ، ایسے لوگوں سے کوئی توقّع بھی کیا
جو کہا جائے، خاموش سُنتے رہو، لَب کُشائی کی قطعاً اِجازت نہیں
نُکتہ چِینی تو فِطرت ہے اِنسان کی، کِس کا شِکوہ کریں، کِس کو اِلزام دیں
خود ہَمِیں کون سے پارساؤں میں ہیں! ہم کو دُنیا سے کوئی شِکایت نہیں
مُجھ کو معلُوم ہے آپ مجبُور ہیں، آپ میرے لیے مُفْت رُسوا نہ ہوں
ایسے حالات میں بے رُخی ٹِھیک ہے، مُجھ کو اِس بات پر کوئی حیرت نہیں
کُچھ یہ اِقبالؔ ہی پر نہیں مُنحَصر ، سرگِرانی مُسلّط ہے ماحَول پر
عَقْل و دانِش کے بڑھتے ہُوئے بَوجھ سے، سر اُٹھانے کی دُنیا کو فُرصت نہیں
پروفیسر اقبالؔ عظیم
اقبال عظیم
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں
مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں
یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں!
آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں
آپ اِس درجہ افسُردہ خاطِر نہ ہَوں، آپ کوئی اَثر اپنے دِل پر نہ لیں
مَیں نے جو کُچھ کہا، اِک فسانہ کہا! اور فسانے کی کوئی حَقِیقت نہیں
ایسی محفِل میں شِرکت سے کیا فائدہ، ایسے لوگوں سے کوئی توقّع بھی کیا
جو کہا جائے، خاموش سُنتے رہو، لَب کُشائی کی قطعاً اِجازت نہیں
نُکتہ چِینی تو فِطرت ہے اِنسان کی، کِس کا شِکوہ کریں، کِس کو اِلزام دیں
خود ہَمِیں کون سے پارساؤں میں ہیں! ہم کو دُنیا سے کوئی شِکایت نہیں
مُجھ کو معلُوم ہے آپ مجبُور ہیں، آپ میرے لیے مُفْت رُسوا نہ ہوں
ایسے حالات میں بے رُخی ٹِھیک ہے، مُجھ کو اِس بات پر کوئی حیرت نہیں
کُچھ یہ اِقبالؔ ہی پر نہیں مُنحَصر ، سرگِرانی مُسلّط ہے ماحَول پر
عَقْل و دانِش کے بڑھتے ہُوئے بَوجھ سے، سر اُٹھانے کی دُنیا کو فُرصت نہیں
پروفیسر اقبالؔ عظیم