غزل
وفورِ عِشق سے بانہوں میں بھر لیا تھا تمھیں
اگرچہ عُمر سے اِک دوست کر لیا تھا تمھیں
رَہے کچھ ایسے تھے حالات، مَیں سمجھ نہ سکا!
پِھر اُس پہ، عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا تمھیں
کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا مجھے
خُدا ہی جانے، جو آشفتہ سر لیا تھا تمھیں
اگرچہ مشورے بالکل گراں نہیں...
غزل
وَسوَسوں کا اُنھیں غلبہ دینا!
چاہیں سوچوں پہ بھی پہرہ دینا
وہ سلاسل ہیں، نہ پہرہ دینا
چاہے دِل ضُعف کو تمغہ دینا
ٹھہری شُہرت سے حَسِینوں کی رَوِش!
حُسن کے سِحْر سے دھوکہ دینا
خود کو دینے سا تو دُشوار نہیں
اُن کا ہر بات پہ طعنہ دینا
بُھولے کب ہیں رُخِ مہتاب کا ہم !
اوّل اوّل کا وہ...
غزل
تیرے حُسن و جمال تک پُہنچا
میں بھی، کتِنے کمال تک پُہنچا
بعد مُدّت کے ذہنِ آشُفتہ !
ایک نازُک خیال تک پُہنچا
اے مِرے شَوقِ بے مِثال! مجھے
آج، اُس بے مِثال تک پُہنچا
اِک زوالِ عرُوج سے ہو کر
مَیں عرُوجِ زوال تک پُہنچا
ذہْن آزاد ہو گیا میرا
جب یَقِیں اِحتمال تک پُہنچا
تذکرہ حُسن کے...
غزل
جون ایلیا
اِک ہُنر ہے جو کر گیا ہُوں مَیں
سب کے دِل سے اُتر گیا ہُوں مَیں
کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کرُوں!
سُن رہا ہُوں کہ گھر گیا ہُوں مَیں
کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہُوں مَیں
اب ہے بس اپنا سامنا در پیش
ہر کسی سے گزر گیا ہُوں مَیں
وہی ناز و ادا وہی غمزے
سر بہ...
غزل
اقبال عظیم
آپ میری طبیعت سے واقف نہیں، مُجھ کو بے جا تکلّف کی عادت نہیں
مُجھ کو پُرسِش کی پہلے بھی خواہش نہ تھی، اور پُرسِش کی اب بھی ضرُورت نہیں
یُوں سَرِ راہ بھی پُرسِشِ حال کی، اِس زمانے میں فُرصت کسی کو کہاں!
آپ سے یہ مُلاقات رسمی سَہِی، اِتنی زحمت بھی کُُچھ کم عِنایت نہیں
آپ...
زندگی میں کمی سی لگتی ہے
یہ مجھے اجنبی سی لگتی ہے
ایک لمحہ ہوا جدا ہو کر
مجھ کو لیکن صدی سی لگتی ہے
گھر جلانا تو ان کا پیشہ ہے
ان کو یہ روشنی سی لگتی ہے
دل میں جذبہ نہیں ہے الفت کا
رہبری رہزنی سی لگتی ہے
بے قراری ، گھٹن ، تیری چاہت
مجھ کو یہ عاشقی سی لگتی ہے
درد کی داستان لکھتا ہوں
ان کو یہ...
جو مجھے کبھی بھی نہ مل سکی مجھے اس خوشی کی تلاش ہے
میں خود اپنے آپ کو جان لوں اسی آگہی کی تلاش ہے
تیری عمر بھر رہی جستجو میں تجھے کبھی بھی نہ پا سکا
میں تو ہوں بقید حیات پرمجھے زندگی کی تلاش ہے
میں اکیلا خوش ہوں تو کچھ نہیں مجھے ہر کسی کا خیال ہے
جو ہو خستہ حال بھی خوش اگر مجھے اس خوشی کی تلاش...
غزل
شفیق خلشؔ
کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو
سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو
شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو
دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو
کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات!
خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو
اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت!
صُحبت...
غزل
جلیل حسن جلیؔل
چال سے فتنۂ خوابیدہ جگاتے آئے!
آپ، جب آئے قیامت ہی اُٹھاتے آئے
نالۂ گرم نے، اِتنا نہ کِیا تھا رُسوا
اشک کمبخت تو، اور آگ لگاتے آئے
دِل کو مَیں اُن کی نِگاہوں سے بچاتا، کیونکر
دُور سے، تِیر نِشانے پہ لگاتے آئے
آئے ہم سُوئے قَفس ، چھوڑ کے جب گُلشن کو
آہ سے آگ نشیمن میں...
ایک غزل پیش ہے
غزل
۔۔۔
کوئی بتلائے کیا یہ غم کم ہے
وہ بھی کہتے ہیں تجھ کو کیا غم ہے
مجھ کو ہر شے سے وہ مقدّم ہے
آرزو دل میں جو مجسّم ہے
دل کا آئینہ ہو اگر صیقل
ہاتھ میں تیرے ساغر جم ہے
کچھ منازل ہیں زیست کی جن میں
نہ کوئی بدرقہ نہ ہمدم ہے
عہد طفلی گیا، شباب گیا
زندگی ہے کہ اب بھی...
غزل
فِراق گورکھپُوری
تِرا جمال بھی ہے آج، اِک جہانِ فِراق
نِگاہِ لُطف و کرم خود ہے تر جمانِ فِراق
فضا جہانِ محبّت کی جِن سے تھی رنگِیں
تجھے بھی یاد کچھ آئے وہ، شادمانِ فِراق
نظر بچا کے جنھیں برقِ حُسن چھوڑ گئی
مِلے نہ زخمِ نہاں میں بھی وہ نشانِ فِراق
نِگاہِ ناز تِری تھی تمام قَول و قَسَم
کسی...
۔۔۔غزل۔۔۔
سن کے بولے وہ مدعا میرا
پڑ گیا کس سے واسطہ میرا
جس نے دیکھا اسی نے منہ پھیرا
تم ہی سن لیتے ماجرا میرا
اب تو اٹھتے ہیں عادتاََ پاؤں
کھو چکا کب کا راستہ میرا
کیا لکھا ؟ لکھ کے پھاڑ بھی ڈالا !
پوچھتا ہے یہ آئینہ میرا
فکر دنیا تھما کے ہاتھوں میں
لے گیا وقت جھنجھنا میرا
اک وہی بات...
غزل
بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے
تو وجہ کیا کوئی باقی ہو دِل میں ڈر کے لیے
طَلَب ذرا نہ ہو تکیہ کی عُمر بھر کے لیے!
مُیَسّر اُن کا ہو زانُو جو میرے سر کے لیے
تمنّا دِل میں کہاں اب کسی بھی گھر کے لیے
نہیں ہے چاند مُیسّر جو بام و دَر کے لیے
کوئی بھی پیار ہو، اِظہار سے عِبارت ہے!
کریں...
غزل
کیوں مُستند خیال کروں ہر خبر کو میں
کیا جانتا نہیں ہوں صفِ معتبر کو میں
میں صاحبِ نظر نہ سہی، دیکھتا تو ہوں
پھر کیا کروں ہر ایک کی فہم و نظر کو میں
آمادہء سفر ہی نہ ہو ہم سفر تو پھر
کیا خاک چھاننے کو چُنوں رہگزر کو میں
کس مہرباں نے کھوٹی کی ہیں میری منزلیں؟
"پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر...
کچھ اشعار پیش ہیں چند ایک روز سے زیر غور تھے ۔
غزل
جاگے گی ایک دن مری تقدیر دیکھنا
کام آئے گی تمہاری نہ تدبیر دیکھنا
پہلے تم اس کے دام کی تزویر دیکھنا
پھر کس سے کون ہوتا ہے تسخیر دیکھنا
اک دن مقابلے پہ صف آرا ملوں گا میں
ٹوٹے گی میرے پاؤں کی زنجیر دیکھنا
میرا حریف بن کے مرے سامنے ہے وہ
اب...
غزل
طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی...
غزل
شفیق خلشؔ
حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!
انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں
جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی !
غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں
خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی
کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں
محبّتوں میں عِنایت کا...
کچھ دنوں سے ایک دو مصرعے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ انہیں ایک غزل کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
جو ہم نہ ہوں تو ہے کس کام کی یہ رعنائی
ڈبو کے چھوڑے گا تم کو یہ زعم یکتائی
اگر چہ کہہ تو دیا تم نے جو میں چاہتا تھا
وہ زیر و بم نہ تھے لیکن شریک گویائی
چراغ ڈستے رہے میری تیرہ راتوں کو
سحر نہ بن سکی...
اب وقت کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے
حالات کا عنوان بہ اندازِ دگر ہے
اے کشتیِ تدبیر کے آرام نشینو!
تقدیر کا فرمان بہ اندازِ دگر ہے
از بسکہ ہیں تخریب کے اطوار نرالے
تعمیر کا سامان بہ اندازِ دگر ہے
اے غم کے اندھیرے میں سسکتے ہوئے راہی
اب صبح کا امکان بہ اندازِ دگر ہے
اربابِ محبت نہیں فریاد کے خوگر...
کیا مذاقِ آسماں ہے ہم دل افگاروں کے ساتھ
ذہن پھولوں سے بھی نازک، زندگی خاروں کے ساتھ
درد کم ہونے نہیں دیتے کہ ہم سے پھر نہ جائیں
کیا محبت ہے مسیحاؤں کو بیماروں کے ساتھ
جن کو سِم سِم کی خبر تھی ان پر دروازے کھلے
ہم الجھتے ہی رہے سنگین دیواروں کے ساتھ
اپنا اندازِ محبت بے نیازِ قرب و بعد
جسم...