غزل ۔ طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں ۔ عرفان ستار

محمداحمد

لائبریرین
غزل

طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں

وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں

کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں

وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسّر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں

کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں

یہ جانتے تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے
جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں

سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں

ہزار تلخ مراسم سہی پہ ہجر کی بات
اُسے پسند نہ تھی اور ہم نے کی بھی نہیں

عرفان ستار
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب انتخاب ہے ، احمد بھائی !
خوبصورت غزل ہے ۔ پسند آئی ۔ بہت اچھے اشعار ہیں ۔

کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں

ویسے اس شعر میں چشم کا کسی کی طرف بڑھنا اور پلٹنا اور رکنا بہت عجیب سا لگا ۔ "کسی کی سمت ایسے بڑھی نگاہِ طلب" ہوتا تو پھر بھی اتنا عجیب نہ لگتا ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے اس شعر میں چشم کا کسی کی طرف بڑھنا اور پلٹنا اور رکنا بہت عجیب سا لگا ۔ "کسی کی سمت ایسے بڑھی نگاہِ طلب" ہوتا تو پھر بھی اتنا عجیب نہ لگتا ۔

جی یہ بات مناسب ہے!

جیسے وہ سیف الدین سیف صاحب کا شعر ہے:

پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی
تجھ پہ قربان ہو گئی ہوگی۔
 
Top