میر تقی

  1. میم الف

    میر تھا شوق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں • میر تقی میرؔ

    آج میں آپ کو میرؔ صاحب کی ایک غزل سنانا چاہتا ہوں۔ سیدھی سادی سی ہے۔ لیکن میرؔ صاحب کی سیدھی سادی باتیں بھی دل میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ یہ غزل تو مجھے اپنی ہی آپ بیتی معلوم ہوتی ہے۔ امید ہے آپ کو بھی پسند آئے گی: تھا شوق مجھے طالبِ دیدار ہوا میں سو آئنہ سا صورتِ دیوار ہوا میں جب دور گیا...
  2. نیرنگ خیال

    میر آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ

    آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ میں بے دماغ عشق اٹھا سو چلا گیا بلبل پکارتی ہی رہی گلستاں کے بیچ تحریک چلنے کی ہے جو دیکھو نگاہ کر ہیئت کو اپنی موجوں میں آب رواں کے بیچ کیا میل ہو ہما کی پس از مرگ میری اور ہے جائے گیر عشق کی تب اُستخواں کے بیچ کیا...
  3. فرخ منظور

    میر ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر ۔ میر تقی میرؔ

    ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر دست کش نالہ، پیش رو گریہ آہ چلتی ہے یاں علم لے کر مرگ اک ماندگی کاوقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک غمِ دوری چلے ہیں ہم لے کر بارہا صید گہ سے اس کی گئے داغِ یاس آہوئے حرم لے کر ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر...
  4. فاتح

    میر میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی ۔ میر تقی میر

    محمد وارث صاحب نے لفظ اللہ کے وزن کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی مشہور زمانہ غزل وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ" کا حوالہ دیا کہ اس غزل میں "اللہ اللہ" کو کس وزن پر باندھا گیا ہے تو ہمارے ذہن میں میر تقی میر کی اس غزل کا مصرع آ گیا کہ اس میں میر نے "اللہ اللہ" کو...
  5. مدیحہ گیلانی

    میر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے ۔۔۔ میر تقی میر

    دہر بھی میرؔ طُرفہ مقتل ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے کثرتِ غم سے دل لگا رُکنے حضرتِ دل میں آج دنگل ہے روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں لیکن اب تک تو روزِ اوّل ہے چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو دل ہے یا خانۂ مقفل ہے سینہ چاکی بھی کام رکھتی...
  6. فاتح

    میر صبح عید اپنی ہے بدتر شب ماتم سے بھی ۔ میر تقی میرؔ

    دل کو تسکین نہیں اشکِ دما دم سے بھی اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی ہم نشیں کیا کہوں اس رشکِ مہِ تاباں بِن صبحِ عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی کاش اے جانِ المناک، نکل جاوے تُو اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی آخرِ کار محبت میں نہ نکلا کچھ کام سینۂ چاک و دلِ پژمردہ مژہ نم سے بھی...
  7. فاتح

    میر مشہور چمن میں تری گل پیرہَنی ہے ۔ میر تقی میر

    مشہور چمن میں تِری گُل پَیرہَنی ہے قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدَنی ہے عریانیِ آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ کُشتہ ہے ترا اور یہی بے کفَنی ہے سمجھے ہے نہ پروانہ نہ تھانبے ہے زباں شمع وہ سوختنی ہے تو یہ گردن زدَنی ہے لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کَنی ہے بلبل کی...
  8. کاشفی

    میر کون کہتا ہے مُنہ کو کھولو تم - میر محمدتقی میر

    غزل (میر محمدتقی میر) کون کہتا ہے مُنہ کو کھولو تم کاش کے پردے ہی میں بولو تم حکم آبِ رواں رکھے ہے حُسن بہتے دریا میں ہاتھ دھو لو تم جب میسّر ہو بوسہ اُس لب کا چُپ کے ہی ہو رہو نہ بولو تم رات گذری ہے سب تڑپتے میر آنکھ لگ جائے گر تو سو لو تم
  9. پ

    میر غزل-ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی-میر تقی میر

    غزل ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی کیونکر کہیئے کہ اثر گریہء مجنوں کو نہ تھا گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی یہ بگولہ تو نہیں دشتِ محبت میں سے جمع ہو خاک اڑی کتنی پریشانوں کی خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب یہی اک رہ گئی ہے...
Top