میر ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر ۔ میر تقی میرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر
دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر

دست کش نالہ، پیش رو گریہ
آہ چلتی ہے یاں علم لے کر

مرگ اک ماندگی کاوقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک
غمِ دوری چلے ہیں ہم لے کر

بارہا صید گہ سے اس کی گئے
داغِ یاس آہوئے حرم لے کر

ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر
رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر

دل پہ کب اکتفا کرے ہے عشق
جائے گا جان بھی یہ غم لے کر

شوق گر ہے یہی تو اے قاصد!
ہم بھی آتے ہیں اب رقم لے کر

میرؔ صاحب ہی چُوکے اے بد عہد!
ورنہ دینا تھا دل قسم لے کر

(میر تقی میرؔ)
 
Top