کلاسیکی ادب

  1. بافقیہ

    فقیر محمد خاں گویاؔ : سرسری نظر

    کل آپ کے پسندیدہ اشعار لڑی میں فقیر محمد خاں گویاؔ کا ایک شعر نظر سے گزرا۔ شعر یہ تھا: شام کو پڑھنی نمازِ صبح واجب ہوگئی روئے عالمتاب سے سرکا جو گیسو یار کا اچھل پڑا ۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ چونکہ کلاسیکی ادب کا شیدا ہوں۔ یہ نام دسیوں نہیں سینکڑوں بار نظر سے گزرا۔ لیکن کبھی اس چھاؤں تلے دم...
  2. فاتح

    میر دلی کے نہ تھے کوچے، اوراق مصور تھے ۔ میر تقی میر

    کچھ موجِ ہوا پیچاں، اے میر! نظر آئی شاید کہ بہار آئی، زنجیر نظر آئی دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی مغرور بہت تھے ہم، آنسو کی سرایت پر سو صبح کے ہونے کو تاثیر نظر آئی گل بار کرے ہے گا اسبابِ سفر شاید غنچے کی طرح بلبل دل گیر نظر آئی اس کی تو دل آزاری بے...
  3. فاتح

    قمر جلالوی مریضِ محبت انہی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے

    سید شہزاد ناصر صاحب نے گلشن آرا سید کی آواز میں "موسیقی کی دنیا" میں یہ غزل شاملِ محفل کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ابھی تک "پسندیدہ کلام کے زمرے میں یہ خوبصورت موجود ہی نہیں۔ سو استاد قمر جلالوی کی یہ غزل سید شہزاد ناصر صاحب کی محبتوں کی نذر: مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے مگر ذکر...
  4. فاتح

    میر میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی ۔ میر تقی میر

    محمد وارث صاحب نے لفظ اللہ کے وزن کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی مشہور زمانہ غزل وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ" کا حوالہ دیا کہ اس غزل میں "اللہ اللہ" کو کس وزن پر باندھا گیا ہے تو ہمارے ذہن میں میر تقی میر کی اس غزل کا مصرع آ گیا کہ اس میں میر نے "اللہ اللہ" کو...
  5. مدیحہ گیلانی

    میر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے ۔۔۔ میر تقی میر

    دہر بھی میرؔ طُرفہ مقتل ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے کثرتِ غم سے دل لگا رُکنے حضرتِ دل میں آج دنگل ہے روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں لیکن اب تک تو روزِ اوّل ہے چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو دل ہے یا خانۂ مقفل ہے سینہ چاکی بھی کام رکھتی...
  6. فاتح

    عشق میں خاک اے بُتاں ہے زیرِ پا بالائے سر ۔ شاہ نصیر

    شاہ نصیر کو انتہائی مشکل زمینوں میں انتہائی خوبصورت اشعار اور غزلیں کہنے کا ملکہ حاصل تھا۔۔۔ ان کی یہ غزل بھی اسی فن کا ایک ثبوت ہے: عشق میں خاک اے بُتاں ہے زیرِ پا بالائے سر آب و آتش شمع ساں ہے زیرِ پا بالائے سر سبزۂ نوخیز و تارِ بارش اے ساقی ہمیں بن ترے تیر و سناں ہے زیرِ پا بالائے سر فرش...
  7. فاتح

    ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلو ٹوٹ گیا ۔ شاہ نصیر

    ہم سے مستی میں بھی خُم کا نہ گلو ٹوٹ گیا تجھ سے پر ساقیِ کم ظرف! سبو ٹوٹ گیا شیخ صاحب کی نمازِ سحَری کو ہے سلام حسنِ نیت سے مصلّے پہ وضو ٹوٹ گیا پیچ و تاب اس دلِ صد چاک نے کھایا جو کوئی دستِ شانہ سے تری زلف کا مُو ٹوٹ گیا دیکھ کر کیوں کہ نہ ہو دیدۂ سوزاں حیراں پیرہن کا مرے ہر تارِ رفو ٹوٹ...
Top