میر ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز

دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں
پھرتا ہوں منہ پہ خاک ملے، جا بجا ہنوز

خط کاڑھ لا کے تم تو مُنڈا بھی چلے ولے
ہوتی نہیں ہماری تمہاری صفا ہنوز

غنچے چمن چمن کھلے اس باغِ دہر میں
دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز

احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اُٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز؟

غنچہ نہ بوجھ دل ہے کسی مجھ سے زار کا
کھلتا نہیں جو سعی سے تیری صبا ہنوز

توڑا تھا کس کا شیشۂ دل تُو نے سنگ دل
ہے دل خراش کُوچے میں تیرے صدا ہنوز

چلّو میں اُس کے میرا لہو تھا، سو پی چکا
اڑتا نہیں ہے طائرِ رنگِ حنا ہنوز

بے بال و پر اسیر ہوں کنجِ قفس میں میرؔ
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز

(میر تقی میرؔ)
 
آخری تدوین:
Top