میر پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
مکمل غزل
مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں

چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش
اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں

سو بار ہم نے گُل کے کہے پر چمن کے بیچ
بھر دی ہیں آبِ‌ چشم سے راتوں کو کیاریاں

کشتے کی اس کے خاک بھری جسمِ زار پر
خالی نہیں ہیں لطف سے لوہو کی دھاریاں

تُربت سے عاشقوں کی نہ اُٹھا، کبھو غبار
جی سے گئے، ولے نہ گئیں رازداریاں

اب کس کس اپنی خواہشِ مردہ کو روئیے
تھیں ہم کو اُس سے سینکڑوں اُمّیدواریاں

پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

کیا جانتے تھے ایسے دن آجائیں گے شتاب
روتے گزرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں

گل نے ہزار رنگِ سخن سر کیا ولے
دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں

جاؤ گے بھول عہد کو ، فر ہاد و قیس کے
گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں

بچ جاتا ، ایک رات جو کٹ جاتی اور میرؔ
کاٹیں تھیں کوہ کن نے بہت راتیں بھاریاں

(میر تقی میرؔ)
 
Top