میر اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خوناب روز و شب

اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا
آتے تھے آنکھوں سے چلے سیلاب روز و شب

اُس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ دُرِ نایاب روز و شب

قدرت تو دیکھ عشق کی، مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب

سجدہ اُس آستاں کا نہیں یوں ہوا نصیب
رگڑا ہے سر میانۂ محراب روز و شب

اب رسمِ ربط اٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب

دل کس کے رُو و مُو سے لگایا ہے میر نے
پاتے ہیں اُس جوان کو بے تاب روز و شب

(میر تقی میر)
 
Top