میر منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا ۔ میر تقی میرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تھے بُرے مغ بچوں کے تیور لیک
شیخ مے خانہ سے بھلا کھسکا

داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب
ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا

قطعہ
بحر کم ظرف ہے بسانِ حباب
کاسہ لیس اب ہوا ہے تُو جس کا

فیض اے ابر، چشمِ تر سے اُٹھا
آج دامن وسیع ہوا اس کا

تاب کس کو جو حالِ میرؔ سنے
حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا

(میر تقی میرؔ)
 
Top