میر پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے

لگنے نہ دے بس ہو تو اُس کے گوہر گوش کے بالے تک
اُس کو فلک چشمِ مہ و خور کی پُتلی کا تارا جانے ہے

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے ہیں
کب موجود خدا کو وہ مغرور خود آرا جانے ہے

عاشق سا تو سادہ کوئی اور نہ ہوگا دنیا میں
جی کے زیاں کو عشق میں اس کے اپنا وارا جانے ہے

چارہ گری بیماریِ دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں
ورنہ دلبرِ ناداں بھی اس درد کا چارا جانے ہے

کیا ہی شکار فریبی پر مغرور ہے وہ صیّاد بچہ
طائر اڑتے ہوا میں سارے اپنی اُسارا جانے ہے

مہر و وفا و لطف و عنایت ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ، رمز و اشارا جانے ہے

عاشق تو مردہ ہے ہمیشہ، جی اٹھتا ہے دیکھے اسے
یار کے آ جانے کو یکا یک عمرِ دوبارا جانے ہے

کیا کیا فتنے سر پر اس کے لاتا ہے معشوق اپنا
جس بے دل، بے تاب و تواں کو عشق کا مارا جانے ہے

رخنوں سے دیوارِ چمن کے منہ کو لے ہے چھُپا یعنی
ان سوراخون کے تک رہنے کو سو کا نظارا جانے ہے

تشنہ خوں ہے اپنا کتنا میر بھی ناداں تلخی کش
دم دار آبِ تیغ کو اس کی آبِ گوارا جانے ہے

(میر تقی میر)
 
Top