میر خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز

آتشِ دل نہیں بجھی شاید
قطرہء اشک ہے شرارہ ہنوز

اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا
چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز

لب پہ آئی ہے جان کب کی ہے
اس کے موقوف یک اشارہ ہنوز

عمر گزری دوائیں کرتے میرؔ
دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز

(میر تقی میرؔ)​
 
Top