میر لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں
اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں

سینہ سپر کیا تھا، جن کے لیے بلا کا
وے بات بات میں اب تلوار کھینچتے ہیں

مجلس میں تیری ہم کو کب غیر خوش لگے ہے
ہم بیچ اپنے اس کے دیوار کھینچتے ہیں

بے طاقتی نے ہم کو چاروں طرف سے کھویا
تصدیع گھر میں بیٹھے ناچار کھینچتے ہیں

منصور کی حقیقت تم نے سنی ہی ہوگی
حق جو کہے ہے اُس کو یاں دار کھینچتے ہیں

شکوہ کروں تو کس سے کیا شیخ کیابرہمن
ناز اس بلائے جاں کے سب یار کھینچتے ہیں

ناوک سے میر اُس کے دل بستگی تھی مجھ کو
پیکاں جگر سے میرے دشوار کھینچتے ہیں

(میر تقی میرؔ)​
 
Top