میر غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا

رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا

نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا

کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا

جس دم کہ تیغِ عشق کھنچی بوالہوس کہاں
سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا

دل زخمی ہوکے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں
اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا

ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مستِ ناز
ذوقِ خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا

وہ دشتِ خوف ناک رہا ہے مرا وطن
سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا


کچھ کم نہیں ہیں شعبدہ بازوں سے مے گسار
دارو پلا کے شیخ کو آدم سے خر کیا

ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گردباد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا

لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ
اک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا

بے شرم محض ہے وہ گنہگار جن نے میرؔ
ابرِ کرم کے سامنے دامانِ تر کیا

(میر تقی میرؔ)

 
Top