میر آہِ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا ۔ میر تقی میرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
آہِ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا

سمجھی نہ بادِ صبح کہ آ کر اٹھا دیا
اس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا

پوشیدہ رازِ عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اٹھا دیا

اس موجِ خیزِ دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا

تھی لاگ اس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا

سب شور ما و من کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا

آوارگانِ عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشتِ غبار لے کے صبا نے اڑا دیا


اجزا بدن کے جتنے تھے پانی ہو بہ گئے
آخر گدازِ عشق نے ہم کو بہا دیا

کیا کچھ نہ تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
ہم کو دلِ شکستہ قضا نے دلا دیا

گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا

مدت رہے گی یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس نے ماہ کے جی سے بھلا دیا

ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا

بوئے کبابِ سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتشِ غم نے جلا دیا

تکلیف دردِ دل کی عبث ہم نشیں نے لی
دردِ سخن نے میرے سبھوں کو رلا دیا

اُن نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا

(میر تقی میرؔ)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ ۔۔۔۔ کمال ۔۔۔۔۔یاد پڑتا ہے کہ کچھ منتخب اشعار کسی کورس کی کتاب میں شامل تھے ۔
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا ۔ واہ
خوش رہیں فرخ بھائی۔
 
Top