غزل (سُرُور بارہ بنکوی) فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل...
غزل (محبوب خزاں) جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم وہ تشنہ کام ہیں...
ہر طرف زخمِ ضرورت کے فروزاں ہیں چراغ اک مگر طاقِ محبت کے پریشاں ہیں چراغ ! خوف و نفرت کی فضا ہے کہ تصور ہے مرا ۔۔۔! خانہء دل میں جو جھانکو تو...
غزل (شہریار) جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل ترے حضور کسی روز یہ...
غزل (کفیل آزر امروہوی) یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا کہ جیسے چاند...
غزل (کفیل آزر امروہوی) اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے ایسے...
تمام عمر عجب کاروبار ہم نے کیا ۔۔۔! کھلے جو پھول تو سینہ فگار ہم نے کیا شبِ وصال کو بخشی درازیء ہجراں وہ آ گئے تو بہت انتظار ہم نے کیا نچوڑ کر...
وہ آ نہ سکے، وہ مل نہ سکے، یہ شکوہء بے جا کیا معنی یہ عشق نہیں، اک غم ہی سہی، پر ذوقِ مداوا کیا معنی! بیدرد جہاں نے جب دل کی ساری خوشیوں کو چھین...
تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں! ہر آن تسلی ہے، ہر لحظہ تشفی ہے ۔۔۔! ہر وقت ہے دل جوئی، ہر دم ہیں...
اپنے شہر میں بے در، بےدیوار ہوئے میرؔ ،تمہاری طرح ہم بھی خوار ہوئے! اُس کی یاد آئی، خوشبو کے پنکھ کھلے اس کا ذکر چلا، منظر گلنار ہوئے! دیکھیں تو...
انتہائے عشق میں ۔۔۔ یہ بھی کمال اُس نے کیا ہجر میں میرے ہی جیسا اپنا حال اُس نے کیا شوق سے پہلے تو مجھ کو ۔۔۔ پائمال اُس نے کیا اور پھر میرے لیے...
دریچے قصرِ تمنا کے پھر کھُلے تو سہی ملے وہ آخرِ شب میں، مگر ملے تو سہی اُدھر عدم کا یہ اصرار ۔۔۔ بس چلے آؤ! اِدھر وجود کو ضد، خاک میں ملے تو سہی...
میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا کہ شاخ شاخ پہ کھلتا رہا ۔۔۔ ۔۔ بکھرتا رہا ! مجھے تو اتنی خبر ہے کہ مشت خاک تھا میں جو چاک مہلت گریہ پہ...
کبھی اِس مکاں سے گزر گیا، کبھی اُس مکاں سے گزر گیا ترے آستاں کی تلاش میں، میں ہر آستاں سے گزر گیا ابھی آدمی ہے فضاؤں میں، ابھی آدمی ہے خلاؤں میں...
غزل (شوکت علی خاں فانی بدایونی) امیدِ کرم کی ہے ادا، میری خطا میں یہ بات نکلتی ہے مری لغزشِ پا میں سمجھو تو غنیمت ہے، مرا گریۂ خونیں یہ...
غزل (کمار پاشی) ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو...
میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا کیا کہوں میں ، دشمنوں میں آشنا میرا بھی تھا اجنبی بیگانہ تیری آشنائی کر گئی اک زمانہ تھا ، زمانہ آشنا...
موجِ شرابِ عشق پہ ڈولے ہوئے سخن اک عالمِ نشاط میں بولے ہوئے سخن جیسے اتر رہے ہوں دلِ تشنہ کام پر تسنیم و زنجبیل میں گھولے ہوئے سخن جیسے پروئیں...
اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا خاک تھا میں ، پھول کے انداز میں رکھا گیا حیثیت اُس خاک کی مت پوچھئے جس کے لئے خاکدانِ سیم و زر آغاز...
غزل (ندا فاضلی) اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے روشنی ختم نہ کر...
ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں