غزل
ایک اور تازیانۂ منظر لگا ہمَیں
آ، اے ہَوائے تازہ! نئے پَر لگا ہمَیں
ندّی چڑھی ہُوئی تھی تو، ہم بھی تھے موج میں
پانی اُتر گیا تو بہت ڈر لگا ہمَیں
گُڑیوں سے کھیلتی ہُوئی بچّی کی آنکھ میں
آنسو بھی آگیا، تو سمندر لگا ہمَیں
بیٹا گِرا جو چھت سے پتنگوں کے پَھیر میں
کُل آسماں پتنگ برابر لگا...
غزل
اِک آفتِ جاں ہے جو مداوا مِرے دِل کا
اچّھا کوئی پھر کیوں ہو مسِیحا مِرے دل کا
کیوں بِھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشہ ہے تڑپنا مِرے دِل کا
بازارِ محبّت میں کمی کرتی ہے تقدِیر
بن بن کے بِگڑ جاتا ہے سودا مِرے دِل کا
گر وہ نہ ہُوئے فیصلۂ حشْر پہ راضی
کیا ہوگا پھر انجام...
غزل
سبھوں کو مے، ہمَیں خُونابِ دِل پلانا تھا
فلک مجھی پہ تجھے کیا یہ زہر کھانا تھا
لگی تھی آگ جگر میں بُجھائی اشکوں نے
اگر یہ اشک نہ ہوتے تو کیا ٹِھکانہ تھا
نِگہ سے اُس کی بچاتا میں کِس طرح دِل کو
ازل سے یہ تو اُسی تِیر کا نِشانہ تھا
نہ کرتا خُوں میں ہمَیں، کِس طرح وہ رنگیں آہ
اُسے تو...
غزلِ
جگر مُراد آبادی
دِل کو کسی کا تابعِ فرماں بنائیے
دُشوارئ حیات کو آساں بنائیے
درماں کو درد، درد کو درماں بنائیے
جس طرح چاہیئے، مجھے حیراں بنائیے
پھر دِل کو محوِ جلوۂ جاناں بنائیے
پھر شامِ غم کو صُبحِ درخشاں بنائیے
پھر کیجئے اُسی رُخِ تاباں سے کسبِ نُور
پھر داغِ دِل کو شمْعِ شبِستاں...
غزل
نہ کسی کی آنکھ کا نُور ہُوں، نہ کسی کے دِل کا قرار ہُوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غُبار ہُوں
میں نہیں ہُوں نغمۂ جاں فِزا، مجھے سُن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہُوں صدا، میں بڑے دُکھی کی پُکار ہُوں
میرا رنگ رُوپ بِگڑ گیا، مِرا یار مجھ سے بِچھڑ گیا
جو چمن...
غزلِ
عجب روِش سے اُنھیں ہم گلے لگا کے ہنسے
کہ گُل تمام گلِستاں میں کِھلکِھلا کے ہنسے
جنھیں ہے شرم وحیا اِس ہنسی پہ روتے ہیں
وہ بے حیا ہے ہنسی پر جو بے حیا کے ہنسے
غم والم مِرا اُن کی خوشی کا باعث ہے
کہ جب ہنسے وہ، مجھے خُوب سا رُلا کے ہنسے
نِکالا چارہ گروں نے جو ذکر مرہم کا
تو خُوب...
غزلِ
گُلشن میں جب ادا سے وہ رنگِیں ادا ہنسے
غُنچے کا مُنہ ہے کیا کہ جو پھر اے صبا ہنسے
دِیوانے کو نہیں تِرے پروا، کہ اے پری !
دِیوانگی پہ میری کوئی روئے یا ہنسے
روئے غمِ فِراق میں برسوں ہم، اے فلک
گر وصل کی خوشی میں کبھی اِک ذرا ہنسے
چارہ کرے اگر تِرے بِیمارِ عِشق کا
تدبِیرِ چارہ ساز...
غزل
نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے
جو ہے باہر، تو اندر کچھ نہیں ہے
محبّت اور نفرت کے عِلاوہ
جہاں میں خیر یا شر کچھ نہیں ہے
مجھے چھوٹی بڑی لگتی ہیں چیزیں
یہاں شاید برابر کچھ نہیں ہے
حقِیقت تھی، سو میں نے عرض کردی
شِکایت بندہ پَروَر کچھ نہیں ہے
نہ ہو کوئی شریکِ حال اُس میں
تو...
جہاں میں ہُوں !
آنند نرائن مُلّا
وہی حِرص و ہَوَس کا تنگ زِنداں ہے جہاں میں ہُوں
وہی اِنساں، وہی دُنیائے اِنساں ہے، جہاں میں ہُوں
تمنّا قید، ہمّت پابَجولاں ہے جہاں میں ہُوں
مجھے جکڑے ہُوئے زنجیرِ اِمکاں ہے جہاں میں ہُوں
کبھی شاید فرشتہ آدمِ خاکی بھی بن جائے
ابھی تو بھیس میں اِنساں کے...
غزلِ
شفیق خلش
منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے
جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے
مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل
پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے
بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں
لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے
اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری
کچھ روز و شب...
غزلِ
دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں
کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں
بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں
کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ...
غزلِ
شاعر فتحپوری
چُھوتی ہے تِرے گیسو بَدمست ہَوا کیسے
ہم بھی تو ذرا دیکھیں اُٹھتی ہے گھٹا کیسے
گردِش میں تو جام آئے، معلوُم تو ہو جائے
میخانہ لُٹاتی ہے ساقی کی ادا کیسے
کیا راہِ محبّت میں کُچھ نقشِ قدم بھی ہیں
کھوئے ہُوئے پاتے ہیں منزِل کا پتا کیسے
نظریں تو اُٹھاؤ تم، دِل ہنْس کے بتا...
غزل
کل جو دِیوار گِراتا ہُوا طوُفاں نِکلا
پائے وحشت کے لئے گھر میں بَیاباں نِکلا
جانے کِس غم سے منوّر ہے ہر اِک لَوحِ جَبِیں
درد ہی رشتۂ اوراقِ پریشاں نِکلا
سر جُھکایا تو کبھی پاؤں تراشے اپنے !
پھر بھی مقتل میں مِرا قد ہی نُمایاں نِکلا
جال ہر سمت رِوایَت نے بِچھا رکھّے تھے
بابِ اِنکار...
غزل
میں تو چُپ تھا مگر اُس نے بھی سُنانے نہ دِیا
غمِ دُنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دِیا
اُس کا زہرآبۂ پَیکر ہے مِری رگ رگ میں
اُس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دِیا
اُس نے دُوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا
کُچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دِیا
بادبان اپنے سفِینے کا ذرا سی لیتے
وقت اِتنا...
غزل
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے...
غزلِ
روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا
دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا
کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا
راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا
اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا
کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا
وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے...
غزلِ
سو دُوریوں پہ بھی مِرے دِل سے جُدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
دِل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دِیا
ورنہ وہ آنکھ اِتنی زیادہ خفا نہ تھی
یُوں دِل لرز اُٹھا ہے کسی کو پُکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خِزاں جو شاخ سے ٹوُٹا وہ خاک تھا
اِس جاں سُپردگی کے تو...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے
دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے
کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے
بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو...
غزلِ
ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس
خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس
حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس
کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ...