انورشعُور ::::: نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے ::::: Anwer Shaoor

طارق شاہ

محفلین
غزل


نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے
جو ہے باہر، تو اندر کچھ نہیں ہے

محبّت اور نفرت کے عِلاوہ
جہاں میں خیر یا شر کچھ نہیں ہے

مجھے چھوٹی بڑی لگتی ہیں چیزیں
یہاں شاید برابر کچھ نہیں ہے

حقِیقت تھی، سو میں نے عرض کردی
شِکایت بندہ پَروَر کچھ نہیں ہے

نہ ہو کوئی شریکِ حال اُس میں
تو اِنساں کے لِیے گھر کچھ نہیں ہے

دریچہ کھول کر دیکھا تھا میں نے
قریب و دُور منظر کچھ نہیں ہے

انورشعُور
 
آخری تدوین:
Top