ابوالاثرحفیظ جالندھری ::::: عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو ::::: Hafeez Jullundhri

طارق شاہ

محفلین
غزل
xj0y.jpg

حفیظ جالندھری

عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو

ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو

عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو

پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے کوئی بہانہ ہو

میرے عزیز مجھ کو نہ چھوڑیں گے قبر تک
اے جان! اِنتظار نہ کر، توُ رَوانہ ہو

کعبے کو جارہا ہُوں نِگہ سُوئے دیر ہے
ہِر پِھر کے دیکھتا ہُوں کوئی دیکھتا نہ ہو

ہاں اے حفِیظ چھیڑتا جا نغمۂ حیات
جب تک تِرا ربابِ سُخن بے صدا نہ ہو

ابوالاثرحفیظ جالندھری
 
Top