شفیق خلش شفیق خلش ::::: حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ


حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے
دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے

جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے
کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے

لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے
بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے

افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ وہ آئے

کم ظُلم و سِتم اِک بھی ہم پر نہ رَوا رکھّا
دے وعدہ و آمد کے پیغام نہ وہ آئے

تنہا جو ہُوئے اُن سے، دُنیا نے لِیا ہاتھوں
کیا کیا نہ لگے ہم پر اِلزام نہ وہ آئے

لوگوں سے سُنے ہم نے اِس ترک تعلّق پر
کیا کیا نہیں نِسبت سے دُشنام نہ وہ آئے

اب آئے تو کیا آئے، کُچھ دل کو نہیں پروا
جب ہجر و مصائب کے ایّام نہ وہ آئے

دُکھ درد خلش دِل سے دھونے کا اِرادہ تھا
تیار تھے بِکنے کو بے دام نہ وہ آئے

شفیق خلش
 
Top