غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے
دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے
تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے
بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم...
غزلِ
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضِیا دِل میں اِک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
بے حِس ہیں تمنّائیں نیند آئی کہ موت آئی
اب دِل کو کسی کروَٹ آرام نہیں مِلتا
اِک عُمْر کا رونا ہے دو...
غزلِ
لب منزلِ فُغاں ہے، نہ پہلوُ مکانِ داغ
دِل ره گیا ہے نام کو باقی نشانِ داغ
اے عِشق! خاکِ دِل پہ ذرا مشقِ فِتنہ کر
پیدا کر اِس زمِیں سے کوئی آسمانِ داغ
دِل کُچھ نہ تها تمھاری نظر نے بنا دِیا
دُنیائے درد، عالَمِ حسرت، جہانِ داغ
پہلے اجَل کو رُخصتِ تلقینِ صبْر دے
پهر آخری نِگاہ سے...
غزلِ
دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری
ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری
حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری
تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری
دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری
کیا عِلاج...
قاضی نذرالاسلام
افلاس
কাজী নজরুল ইসলাম
* مترجمہ: صادق القادری
افلاس توُ نے بخشا بڑا مرتبہ مجھے
عیسیٰ کی صف میں لا کے کھڑا کردِیا مجھے
جو تاج تو نے بخشا ہے گو ہے وہ داغدار
اِس سے مگر بُلند ہُوا ہے مِرا وقار
تیرے طفیل کہتا ہُوں ہر بات بے خطر
جو میرے دل میں ہے وہی میری زبان پر
تیرا پیام،...
غزلِ
بَد مَست شوق شاہدِ کون و مکاں ہے آج
شاید فِضا میں جذب مئے ارغواں ہے آج
جو پندِ عقل و ہوش ہے وہ رائیگاں ہے آج
حرفِ جُنوں کے آگے خِرد بے زباں ہے آج
برقِ جَفا بھی خوف سے گِرتی نہیں جہاں
اِک ایسی شاخِ گُل پہ مِرا آشیاں ہے آج
لال و گُہر سُبک سے سُبک تر ہُوئے ہیں اب
جنسِ وفا کا خیر سے...
غزلِ
دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم
لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم
لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم
تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم
دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم
یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم
بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !
دُکھ کب تِرے خیال سے...
شامِ رنگیں
حفیظ جالندھری
پچّھم کے در پہ سُورج بِستر جما رہا ہے
رنگین بادلے میں چہرہ چُھپا رہا ہے
کِرنوں نے رنگ ڈالا بادل کی دھارِیوں کو
پھیلا دِیا فلک پر گوٹے کِناریوں کو
عکسِ شَفَق نے کی ہے اِس طرح زرفشانی
گُھل مِل کے بہ رہے ہیں ندی میں آگ پانی
اوڑھے سِیہ دوپٹّے سرسبز وادِیوں نے...
غزلِ
ناصر کاظمی
وہ اِس ادا سے جو آئے تو یُوں بَھلا نہ لگے
ہزار بار مِلو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عِنایت کہ سَو گُماں گُزریں
کبھی وہ طرزِ تغافل، کہ محرمانہ لگے
وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بِجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مرُوّت کہ عاشقانہ لگے
دکھاؤں داغِ محبّت جو ناگوار نہ ہو
سُناؤں قصّۂ...
غزلِ
جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا
تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا
قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا
دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا
سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری
چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا
چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ
عاشِق ہُوں مگر...
غزلِ
ناصر کاظمی
وا ہُوا پھر درِ میخانۂ گُل
پھرصبا لائی ہے پیمانۂ گُل
زمزمہ ریز ہُوئے اہلِ چمن
پھر چراغاں ہُوا کاشانۂ گُل
رقص کرتی ہُوئی شبنم کی پَری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گُل
پُھول برسائے یہ کہہ کر اُس نے
میرا دِیوانہ ہے دِیوانۂ گُل
پھرکسی گُل کا اِشارہ پا کر
چاند نِکلا سرِ مےخانۂ...
غزلِ
کہنے کو ہر اِک بات کہی تیرے مُقابل
لیکن، وہ فسانہ جو مِرے دِل پہ رَقم ہے
محرُومی کا احساس مجھے کِس لِئے ہوتا
حاصِل ہے جو مجھ کو کہاں دُنیا کو بَہم ہے
یا تجھ سے بِچھڑنے کا نہیں حوصلہ مجھ میں
یا تیرے تغافل میں بھی اندازِ کرم ہے
تھوڑی سی جگہ مجھ کو بھی مِل جائے کہِیں پر
وحشت تِرے...
غزلِ
یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے
جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے
دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے
ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے
راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے
کرکے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے
اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے
گھر جو مرضی...
غزلِ
ابرُو تو دِکھا دیجیے شمشِیر سے پہلے
تقصِیر تو کُچھ ہو، مِری تعزِیر سے پہلے
معلوُم ہُوا اب مِری قِسمت میں نہیں تم
مِلنا تھا مجھے کاتبِ تقدِیر سے پہلے
اے دستِ جنُوں توڑ نہ دروازۂ زِنداں
میں پُوچھ تو لوُں پاؤں کی زنجیر سے پہلے
اچھّا ہُوا، آخر مِری قِسمت میں سِتم تھے
تم مِل گئے مجھ کو...
غزلِ
بُھلا دو، رنج کی باتوں میں کیا ہے
اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے
بہت تارِیک دِن ہے، پھر بھی دیکھو
اُجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے
نہیں پاتِیں جسے بَیدار نظریں
خُدایا یہ مِرے خوابوں میں کیا ہے
یہ کیا ڈُھونڈے چَلے جاتی ہے دُنیا
تماشہ سا گلی کوُچوں میں کیا ہے
ہے وحشت سی یہ ہرچہرے...
غزلِ
سردار نقوی
رنگ اِک آتا رہا چہرے پہ اِک جاتا رہا
میں تو ماضی کو فقط آئینہ دِکھلاتا رہا
دُھوم تھی جس کے تکّلم کی، وہی جانِ سُخن
جب حدیثِ دِل کی بات آئی تو ہکلاتا رہا
پیاس صحرا کے مُقدّر میں جو تھی، سو اب بھی ہے
ابر برسا بھی تو، بس دریا کو چھلکاتا رہا
بڑھ کے جو آغوش میں لے لے، کوئی ایسا...
غزلِ
گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم
جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم
بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں
لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم
نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور
توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم
اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں
نبرد آرا سا رہتے ہیں...
غزلِ
اپنا چمَن نہیں تو خِزاں کیا، بہار کیا
بُلبُل ہو نغمہ سنج سرِشاخسار کیا
مِنّت پذیرِ شوق، نہ مانوُس اِضطراب
تجھ کو قرار آئے دِلِ بیقرار کیا
غفلت کا ہے یہ حال، کہ اب تک خبر نہیں
اِس انجُمن میں کیا ہے نہاں، آشکار کیا
ناآشنائے راز ہیں سرگشتگانِ ہوش
پُوچھے کوئی خِزاں سے الگ ہے بہار کیا...
پنڈت برج نارائن چکبست
دِل ہی بُجھا ہُوا ہو تو لُطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا ، شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا
یہ دِل کی تازگی ہے ، وہ دِل کی فسُردگی
اِس گُلشنِ جہاں کی خِزاں کیا، بہار کیا
کِس کے فسُونِ حُسن کا دُنیا طلِسم ہے
ہیں لوحِ آسماں پہ یہ نقش و نِگار کیا
دیکھا سرُور بادۂ ہستی کا خاتمہ
اب...
غزلِ
میر تقی میر
مُدّت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں
نامے کا اُس کی مہر سے اب نام بھی نہیں
ایّامِ ہجْر کریے بسر کِس اُمید پر
مِلنا اُنھوں کا صُبح نہیں، شام بھی نہیں
پَروا اُسے ہو کاہےکو، ناکام گر مَرُوں
اُس کام جاں کو مجھ سے تو کُچھ کام بھی نہیں
رووَیں اِس اِضطراب دِلی کو کہاں تلک
دِن...