طارق شاہ
محفلین
غزلِ

حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے
دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے
تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے
بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم آئے
کم ظُلم و سِتم تم نے ہم پر نہ روا رکھّا
دے وعدہ و آمد کے پیغام نہ تم آئے
تنہا جو کیا تم نے، دُنیا نے لِیا ہاتھوں
کیا کیا نہ لگے ہم پر اِلزام نہ تم آئے
لوگوں سے سُنے ہم نے اِس ترک تعلّق پر
تمہاری ہی نِسبت سے دُشنام نہ تم آئے
اب آئے تو کیا آئے، کُچھ دل کو نہیں پروا
جب ہجر و مصائب کے ایّام نہ تم آئے
سب درد و خلش دِل سے دھونے کا اِرادہ تھا
تیار تھے بِکنے کو بے دام نہ تم آئے
شفیق خلش
آخری تدوین: