شفیق خلش شفیق خلش ::::: جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
khalish_small.jpg


جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا
تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا

قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا
دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا

سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری
چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا

چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ
عاشِق ہُوں مگر دِل ذرا گھائل نہیں رکھتا

شاداں ہُوں مِلی مہوشِ خُوباں سے ہَمہ وقت
دِل اور کسی حُسن پہ مائل نہیں رکھتا

کیا کیا نہ تدابِیر دِل و ذہن میں رکھّے
کُچھ کرنے کو جو شخص وسائل نہیں رکھتا

تفتیش زمانے کو ہے کیوں حال کی میرے
ہے کون جو دُنیا میں مسائل نہیں رکھتا

مُجرِم میں ہُوا کیوں طلبِ یار پہ اپنے
ہے کوئی درِ حُسن جو سائل نہیں رکھتا ؟

اِک لمحہ کہاں اپنا مجھے ہوش رہا اب
کب ذہن میں، وہ حُورِ شمائل نہیں رکھتا

نالاں ہیں سب احباب خلِش صبر سے یُوں بھی
پیش اُن کے کبھی اپنے مسائل نہیں رکھتا

شفیق خلِش
 
Top