ناصر کاظمی ::::: وہ اِس ادا سے جو آئے تو یُوں بَھلا نہ لگے ::::: Nasir Kazmi

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

ناصر کاظمی

وہ اِس ادا سے جو آئے تو یُوں بَھلا نہ لگے
ہزار بار مِلو پھر بھی آشنا نہ لگے

کبھی وہ خاص عِنایت کہ سَو گُماں گُزریں
کبھی وہ طرزِ تغافل، کہ محرمانہ لگے

وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بِجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مرُوّت کہ عاشقانہ لگے

دکھاؤں داغِ محبّت جو ناگوار نہ ہو
سُناؤں قصّۂ فُرقت، اگر بُرا نہ لگے

بہت ہی سادہ ہے توُ، اور زمانہ ہے عیّار
خُدا کرے کہ تجھے شہر کی ہَوا نہ لگے

بُجھا نہ دیں یہ مُسلسل اُداسیاں دِل کی
وہ بات کر کہ طبیعت کو تازیانہ لگے

جو گھر اُجڑ گئے اُن کا نہ رنج کر، پیارے
وہ چارہ کر کہ یہ گُلشن اُجاڑ سا نہ لگے

عتابِ اہلِ جہاں سب بُھلا دِئے، لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک، جوغائبانہ لگے

وہ رنگ دِل کو دِئے ہیں لہُو کی گردِش نے
نظر اُٹھاؤں تو، دُنیا نِگارخانہ لگے

عجیب خواب دِکھاتے ہیں ناخُدا ہم کو
غرض یہ ہے کہ، سفِینہ کِنارے جا نہ لگے

لِیے ہی جاتی ہے ہر دَم کوئی صدا ،ناصر
یہ اور بات، سُراغِ نشانِ پا نہ لگے

ناصر کاظمی
 
Top