شفیق خلش شفیق خلِش ::::: گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ


گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم
جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم

بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں
لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم

نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور
توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم


اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں
نبرد آرا سا رہتے ہیں کِس وبال سے ہم

نئے بَرس سے توقّع، نہ خیر کی اُمِّید !
کہ خوش رہے نہ کسی بھی گُزشتہ سال سے ہم

مِلے وہ ہم کو جنھیں ہم نے اپنا مانا ہے
دُعائیں روز کریں ربِّ ذوالجلال سے ہم

رہے گا ذکر ہمارا، ہمارے بعد سہی !
سُخنوری میں رہے کم نہ کُچھ کمال سے ہم

زبانِ خلق پہ رہتا ہے ذکر یُوں بھی خلِش
کہ عاشقی میں ہیں اُن کی نہ کم مِثال سے ہم

کمال، فہْم وفصاحت میں شعر یُوں ہیں خلِش
کہ گُفتگوُ میں رہے دُور اِبتذال سے ہم

شفیق خلش
 
Top