طارق شاہ
محفلین
غزلِ
روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا
دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا
کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا
راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا
اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا
کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا
وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے گیا
تھی مگر اب خوشی نہیں
غم کا وہ ڈھال لے گیا
میری ہنسی لبوں سے وہ
ماہِ شوال لے گیا
دِل تھا خلِش جوسِینے میں
شاہِ جَمال لے گیا
شفیق خلش

روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا
دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا
کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا
راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا
اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا
کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا
وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے گیا
تھی مگر اب خوشی نہیں
غم کا وہ ڈھال لے گیا
میری ہنسی لبوں سے وہ
ماہِ شوال لے گیا
دِل تھا خلِش جوسِینے میں
شاہِ جَمال لے گیا
شفیق خلش
آخری تدوین: