غزل
(کفیل آزر امروہوی)
جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا
وہ مری آنکھوں میں پانی دے گیا
جاگتے لمحوں کی چادر اوڑھ کر
کوئی خوابوں کو جوانی دے گیا
میرے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر
مجھ کو زخموں کی کہانی دے گیا
حل نہ تھا مشکل کا کوئی اس کے پاس
صرف وعدے آسمانی دے گیا
خود سے شرمندہ مجھے ہونا پڑا...
غزل
(طفیل چترویدی)
ظلم کو تیرے یہ طاقت نہیں ملنے والی
دیکھ تجھ کو مری بیعت نہیں ملنے والی
لوگ کردار کی جانب بھی نظر رکھتے ہیں
صرف دستار سے عزت نہیں ملنے والی
شہر تلوار سے تم جیت گئے ہو لیکن
یوں دلوں کی تو حکومت نہیں ملنے والی
راستے میں اسے دیکھا ہے کئی روز کے بعد
آج تو رونے کو فرصت...
غزل
(نشور واحدی)
قامتِ دل ربا پر شباب آ گیا
یا سوا نیزے پر آفتاب آ گیا
جاگی جاگی ان آنکھوں کا عالم نہ پوچھ
سامنے ایک جام شراب آ گیا
اک نگاہ محبت کی تخمیر میں
سب سمٹ کر جہان خراب آ گیا
یہ چلے وہ بڑھے وہ جواں ہو گئے
چند لمحوں میں یوم الحساب آ گیا
جھوم اٹھی ایک ارماں بھری زندگی
جب...
غزل
(گلزار)
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا
ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو...
یوٹیلٹی اور عام شہری اداروں کی کراچی میں یہ صورتحال میری نظر سے گزری۔ ایک دوست سوک سینٹر کراچی میں مکڑی کے جالوں کا یوں تذکرہ کر رہے تھے کہ گویا یہاں کا شہری نظام سرے سے ہی تل پٹ ہو گیا ہے سو یہ لکھنے کا خیال آیا۔ وہ دوست گذشتہ بیس سال سے امریکا میں مقیم ہیں۔
گیس
سوک سینٹر سوئی گیس کے دفتر میرا...
غزل
(جگر بریلوی)
محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں
حسیں ہو تم تو ہم بھی پارسا ہیں
ہمیں کیا اس سے وہ کون اور کیا ہیں
یہ کیا کم ہے حسیں ہیں دل ربا ہیں
زمانے میں کسے فرصت جو دیکھے
سخنور کون شے ہیں اور کیا ہیں
مٹاتے رہتے ہیں ہم اپنی ہستی
کہ آگاہ مزاج دل ربا ہیں
نہ جانے درمیاں کون آ گیا ہے
نہ...
غزل
(عبدالحمید عدم)
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا
توبہ کے ٹوٹنے کا بھی کچھ کچھ ملال تھا
تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا
ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو
ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا
وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے
میں دوستوں کے...
غزل
(فراق گورکھپوری)
زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا
تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا
خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا
حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا
نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا
رموز بے خودی بدلے تقاضائے خودی بدلا
بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں
نہیں بدلی...
غزل
شفیق خلشؔ
ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے
روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے
لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال
سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے
یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے
بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے
اگلی مانگی کا ہمیں...
غزل
کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو
مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو
سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو
ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو
مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت
خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو
یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ
فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو
کہاں...
ماہرؔ القادری
غزل
حُسن کے ناز و ادا کی شرح فرماتا ہُوں میں
شعر کیا کہتا ہُوں ماہرؔ! پُھول برساتا ہُوں میں
تشنگی اِس حد پہ لے آئی ہے، شرماتا ہُوں میں
آج پہلی بار، ساقی! ہاتھ پھیلاتا ہُوں میں
شوق و مستی میں کہاں کا ضبط، کیسی احتیاط
اِن حدوں سے تو بہت آگے نِکل جاتا ہُوں میں
عاشقی سب سے بڑا ہے...
میئر کراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ کراچی کو دوکروڑ درختوں کی کمی کا سامنا ہے، کے ایم سی کے زیراہتمام شجر کاری مہم شروع کی گئی ہے تاکہ شہرکو ایک اچھا ماحول فراہم کیا جاسکے، ہر ہفتے مختلف علاقوں میں جا کر خود شجر کاری مہم میں حصہ لے رہے ہیں اور شہریوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ کم از کم ایک پودا...
سندھ حکومت کی دس لاکھ تمر کے درخت کاشت کر کے نیا عالمی ریکارڈ بنانے کی کوشش
پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے ایک روز میں زیادہ سے زیادہ تمر (یعنی مینگروو) کے پودے لگانے کے لیے ساحلی علاقے کھارو چاھن میں شجر کاری جاری ہے جہاں وہ دس لاکھ پودے لگا کر گنیز بک آف ریکارڈ میں اپنا ہی ریکارڈ...
غزل
تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم
مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم
وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم
خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم
آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے!
کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم
جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو
کیونکر...
غزل
ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے
نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے
ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں
ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں
پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب
میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں
جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے
حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں
دم بخود ہوں اب سرِ...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے
یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے
نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر
انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے
یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں
وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی...
غزل
(سُرُور بارہ بنکوی)
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ
تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ
دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون
یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ
ان حسیں...
غزل
(محبوب خزاں)
جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں
نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم
وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں
تمام عمر یہ افسردگان محفل گل
کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں
فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا
کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
غزل
(شہریار)
دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی
اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی
رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں
مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی
لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم
کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی
میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا
یہ...