طارق شاہ
محفلین
غزل
کارِ ہستی ہنوز سیکھتے ہیں
ہم نہیں وہ کہ غوز سیکھتے ہیں
کم ہُنر، وہ نہ روز سیکھتے ہیں!
گُر مصائب کے، دوز سیکھتے ہیں
کب کتابوں سے عِلم وہ حاصِل !
جو رویّوں سے روز سیکھتے ہیں
مرثیہ کیا کہیں گے وہ ،کہ ابھی
قبل کہنے کو، سوز سیکھتے ہیں
ہو کمال اُن کو خط نویسی پر
جو نَوِشتَن بہ لوز سیکھتے ہیں
زیست کو پیش مرحلوں سے خلشؔ
کُچھ نہ کُچھ ، وجہِ فوز سیکھتے ہیں
شفیق خلشؔ
آخری تدوین: