غزل
(شہریار)
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا
اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل
ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا
مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی
یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا
کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو
ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر
وہ خط تجھے بھی...
غزل
(کفیل آزر امروہوی)
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن
اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے
قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے...
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تین میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز یکم اپریل سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہوگی-
سیریز کے اسکواڈ کا اعلان کر دیا گیا ہے-
میچز 1،2،3 اپریل کو کھیلے جائیں گے-
غزل
دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی
تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی
خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی
ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی
دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر
تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی
لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا
بال ہر روز ناپتی تھی کوئی
یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی
جن کو ہاتھوں سے...
غزل
دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں
اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں
جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے
ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں
خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر
کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں
جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں
اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں
کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں
دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
غزل
حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے
کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے
ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک!
کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے
بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل
ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے
شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
غزل
نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے
شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے
چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے
خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے
دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب !
جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے
خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ
اُمید ملنے کی جب بھی...
غزل
(کمار پاشی)
گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں
خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں
کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو
جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں
کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل
ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں
ختم...
غزل
کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے
وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے
بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے
باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے
مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں!
کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے
خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی
یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...
غزل
خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد
نادم تو وہ ر ہے تھے دِیے تہمتوں کے بعد
پہچان کچھ نِکھر سی گئی شدّتوں کے بعد
کندن ہُوئے ہیں غم سے جُڑی حدّتوں کے بعد
دستک ہُوئی یہ کیسی درِ در گزر پہ آج
شعلہ سا ایک لپکا بڑی مُدّتوں کے بعد
حیراں ہمارے صبر پہ احباب تک ہُوئے
راس آئے درد وغم ہمیں جب شدّتوں...
غزل
کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم
دل و دماغ ہیں تابع تمھارے، کون ہو تم
جو آکے بیٹھ گئے ہو مکین و مالک سا
دل و جگر میں محبت اُتارے کون ہو تم
خیال و خواب میں خوش کن جمالِ خُوب لیے
بسے ہو زیست کے بن کر سہارے کون ہو تم
تمھاری ذات سے منسُوب و منسلک سے رہیں
اُمید و بِیم کے سارے اِشارے کون ہو...
غزل
چمن دہل گیا موسم پہ کچھ اثر بھی نہ تھا
کٹے وہ شاخ سے، جن کو شعورِ پر بھی نہ تھا
نمودِ ضُو کو ہی، گر زندگی کہا جائے !
تو بے چراغ تو بستی میں ایک گھر بھی نہ تھا
یہ قافلے تو یہیں منسلک ہُوئے ہم سے
چلے تھے موج میں، تو ایک ہمسفر بھی نہ تھا
سوادِ شہر سے ہم دشت میں بھی ہو آئے
سلامتی کا...
غزل
(آزاد گلاٹی)
ڈوب کر خود میں کبھی یوں بے کراں ہو جاؤں گا
ایک دن میں بھی زمیں پر آسماں ہو جاؤں گا
ریزہ ریزہ ڈھلتا جاتا ہوں میں حرف و صوت میں
رفتہ رفتہ اک نہ اک دن میں بیاں ہو جاؤں گا
تم بلاؤ گے تو آئے گی صدائے بازگشت
وہ بھی دن آئے گا جب سونا مکاں ہو جاؤں گا
تم ہٹا لو اپنے احسانات کی...
غزل
(آزاد گلاٹی)
ایک ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
کوئی تو مجھ سے بڑا ہے مجھ میں
انکساری مرا شیوہ ہے مگر
اک ذرا زعم انا ہے مجھ میں
مجھ سے وہ کیسے بڑا ہے کہیے
جب خدا میرا چھپا ہے مجھ میں
میں نہیں ہوں تو مرا کون ہے یہ
اتنے جنموں جو رہا ہے مجھ میں
وہی لمحے تو غزل چھیڑتے ہیں
جن کی گم گشتہ صدا...
غزل
(کمار پاشی)
ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے
میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے
دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو
ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے
ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری
زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے
گاہے گاہے اب بھی چلے...
غزل
اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں
بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں
ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں
فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں
دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں
اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں
کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے
اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں
کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز !
کچھ بھروسہ بھی آسماں...
غزل
تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے
نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے
کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے !
نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے
ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے
رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے
اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر
نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے
پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے!
ہٹے نا اُمیدی بھی...
غزل
(سید عارف)
لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے اور میں تجھے الزام دیتا ہوں مگر
اپنے اندر جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیا دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
چاہتے دونوں بہت اک...