اُمیؔد فاضلی:::::ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے:::::Ummeed -Fazli

طارق شاہ

محفلین


غزل
ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے

یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے

نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے

ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر گئے ہوتے

ہمی نے زخمِ دل و جاں چُھپا لیے، ورنہ
نہ جانے کتنوں کے چہرے اُتر گئے ہوتے

سکون ِ دِل کو نہ اِس طرح بھی ترستے ہم
تِرے کَرَم سے سے جو بچ کر، گُزر گئے ہوتے

جو تِیر، اندھی ہَوا نے چلائے تھے کل رات!
نہ ہوتے ہم ، تو نجانے کِدھر گئے ہوتے

ہَمَیں بھی دُکھ تو بہت ہے، مگر یہ جھوٹ نہیں
بُھلا نہ دیتے اُسے ہم، تو مر گئے ہوتے

جو ہم بھی اُس سے زمانے کی طرح ملتےاُمیدؔ
ہمارے شام و سحر بھی سنور گئے ہوتے

اُمیؔد فاضلی

 
Top