شفیق خلش :::::حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے
کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے

ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک!
کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے

بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل
ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے

شُبہ تک تھا نہیں ترکِ تعلّق پر مناظرسب!
شِکستہ دِل کے گوشوں میں کہِیں آباد بھی ہونگے

بہت خوش تھے، ذرا احساس کب تھااپنی ہِجرت پر
تعاقُب میں وہی نالے، وہی فریاد بھی ہونگے

مجھے تنہا کئے کی سازِشوں میں وجۂ احباب !
کسے معلُوم تھا یُوں ورثۂ اجداد بھی ہونگے

خلش دِل کو گُماں تک تھا نہیں یہ روزِ ہِجرت تک!
مذاہِب کےجَھمیلوں سے کہِیں آزاد بھی ہونگے

شفیق خلشؔ

 
Top