طارق شاہ
محفلین
غزل
کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے
وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے
بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے
باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے
مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں!
کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے
خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی
یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے
فرماں روائی غم میں بھی کب کم تھی مرحمت
دَردَوں کا کیا گِلہ ہو دِلِ تاجدار سے
مجھ پر مفارقت سے خزاں مستقل ہُوئی
بہلے گا خاک دِل مرا باغ و بہار سے
حیراں ہُوں اپنے دِل پہ، کہ مُدّت ہُوئی مگر
عاجز ہُوا ذرا نہ ترے اِنتظار سے
یاد آئے آج ہار کے بیٹھے پہ وہ خلشؔ
جن کو بدل دِیا تھا غمِ روز گار سے
شفیق خلشؔ