کراچی

  1. کاشفی

    فراق زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا - فراق گورکھپوری

    غزل (فراق گورکھپوری) زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا رموز بے خودی بدلے تقاضائے‌ خودی بدلا بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں نہیں بدلی...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::::ماہِ رمضاں میں عبادت کا مزہ کُچھ اور ہے::::::Shafiq -Khalish

    غزل شفیق خلشؔ ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے اگلی مانگی کا ہمیں...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تُم ہو::::::Shafiq -Khalish

    غزل کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو کہاں...
  4. طارق شاہ

    ماہر القادری ::::::حُسن کے ناز و ادا کی شرح فرماتا ہُوں میں::::::Mahir-ul- Quadri

    ماہرؔ القادری غزل حُسن کے ناز و ادا کی شرح فرماتا ہُوں میں شعر کیا کہتا ہُوں ماہرؔ! پُھول برساتا ہُوں میں تشنگی اِس حد پہ لے آئی ہے، شرماتا ہُوں میں آج پہلی بار، ساقی! ہاتھ پھیلاتا ہُوں میں شوق و مستی میں کہاں کا ضبط، کیسی احتیاط اِن حدوں سے تو بہت آگے نِکل جاتا ہُوں میں عاشقی سب سے بڑا ہے...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم::::::Shafiq Khalish

    غزل تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے! کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو کیونکر...
  6. طارق شاہ

    اُمیؔد فاضلی:::::ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے:::::Ummeed -Fazli

    غزل ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
  7. کاشفی

    اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) اے جنوں کچھ تو کُھلے آخر میں کس منزل میں ہوں ہوں جوارِ یار میں یا کوچۂ قاتل میں ہوں پا بہ جولاں اپنے شانوں پر لیے اپنی صلیب میں سفیرِ حق ہوں لیکن نرغۂ باطل میں ہوں جشنِ فردا کے تصور سے لہو گردش میں ہے حال میں ہوں اور زندہ اپنے مستقبل میں ہوں دم بخود ہوں اب سرِ...
  8. کاشفی

    تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) تو عُروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے یہ ضرور ہے کہ بہ ایں ہمہ مرا اہتمام نظر بھی ہے نہ ہو مضمحل مرے ہم سفر تجھے شاید اس کی نہیں خبر انہیں ظلمتوں ہی کے دوش پر ابھی کاروان سحر بھی ہے یہ مرا نصیب ہے ہم نشیں سر راہ بھی نہ ملے کہیں وہی مرا جادۂ جستجو وہی ان کی...
  9. کاشفی

    فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ - سُرُور بارہ بنکوی

    غزل (سُرُور بارہ بنکوی) فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ ہاتھ ہیں الجھے ہوئے اب تک گریبانوں کے ساتھ تیرے مے خانوں کی اک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ دیکھنا ہے تا بہ منزل ہم سفر رہتا ہے کون یوں تو عالم چل پڑا ہے آج دیوانوں کے ساتھ ان حسیں...
  10. کاشفی

    جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں - محبوب خزاں

    غزل (محبوب خزاں) جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں تمام عمر یہ افسردگان محفل گل کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا کسی سے کھیل چکے ہیں کسی...
  11. کاشفی

    دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی - شہریار

    غزل (شہریار) دیارِ دل نہ رہا بزمِ دوستاں نہ رہی اماں کی کوئی جگہ زیرِ آسماں نہ رہی رواں ہیں آج بھی رگ رگ میں خون کی موجیں مگر وہ ایک خلش وہ متاعِ جاں نہ رہی لڑیں غموں کے اندھیروں سے کس کی خاطر ہم کوئی کرن بھی تو اس دل میں ضو فشاں نہ رہی میں اس کو دیکھ کے آنکھوں کا نور کھو بیٹھا یہ...
  12. کاشفی

    جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا - شہریار

    غزل (شہریار) جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہوگا اسی امید پہ کب سے دھڑک رہا ہے دل ترے حضور کسی روز یہ طلب ہوگا مکاں تو ہوں گے مکینوں سے سب مگر خالی یہاں بھی دیکھوں تماشا یہ ایک شب ہوگا کوئی نہیں ہے جو بتلائے میرے لوگوں کو ہوا کے رخ کے بدلنے سے...
  13. کاشفی

    یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد - کفیل آزر امروہوی

    غزل (کفیل آزر امروہوی) یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر وہ خط تجھے بھی...
  14. کاشفی

    اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے - کفیل آزر امروہوی

    غزل (کفیل آزر امروہوی) اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے...
  15. عبداللہ محمد

    پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز: ٹی ٹوئنٹی سیریز

    پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان تین میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز یکم اپریل سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہوگی- سیریز کے اسکواڈ کا اعلان کر دیا گیا ہے- میچز 1،2،3 اپریل کو کھیلے جائیں گے-
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی :::::Shafiq Khalish

    غزل دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا بال ہر روز ناپتی تھی کوئی یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی جن کو ہاتھوں سے...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں:::::Shafiq Khalish

    غزل دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے::::: Shafiq Khalish

    غزل حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک! کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے:::::Shafiq Khalish

    غزل نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب ! جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ اُمید ملنے کی جب بھی...
  20. کاشفی

    گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں - کمار پاشی

    غزل (کمار پاشی) گھیرا ڈالے ہوئے ہے دشمن بچنے کے آثار کہاں خالی ہاتھ کھڑے ہو پاشیؔ رکھ آئے تلوار کہاں کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں کیا حسرت سے دیکھ رہے ہیں ہمیں یہ جگ مگ سے ساحل ہائے ہمارے ہاتھوں سے بھی چھوٹے ہیں پتوار کہاں ختم...
Top