مصطفیٰ زیدی

  1. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بزدل ۔ مصطفیٰ زیدی

    بزدل آج اک افسروں کے حلقے میں ایک معتوب ماتحت آیا اپنے افکار کا حساب لیے اپنے ایمان کی کتاب لیے ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں ایک بجھتی ہوئی ذہانت تھی افسروں کے لطیف لہجے میں قہر تھا، زہر تھا، خطابت تھی یہ ہر اک دن کا واقعہ، اس دن صرف اس اہمیت کا حامل تھا کہ شرافت کے زعم کے با وصف میں بھی ان افسروں...
  2. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اجالا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اجالا میری ہمدم، مرے خوابوں کی سنہری تعبیر مسکرا دے کہ مرے گھر میں اجالا ہو جائے آنکھ ملتے ہوئے اٹھ جائے کرن بستر سے صبح کا وقت ذرا اور سہانا ہو جائے میرے نکھرے ہوئے گیتوں میں ترا جادو ہے میں نے معیارِ تصور سے بنایا ہے تجھے میری پروینِ تخیل، مری نسرینِ نگاہ میں نے تقدیس کے پھولوں سے سجایا ہے...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی یونان ۔ مصطفیٰ زیدی

    یونان ہم تو یہ سوچ کے آئے تھے تری گلیوں میں کہ یہاں تیشۂ فرہاد کی قیمت ہو گی بھائی کیوپڈ سے ملیں گے کسی دوراہے پر کسی بے نام سے اک موڑ پہ جنت ہو گی ہم اولمپس پہ خداؤں کی زباں بولیں گے اپنی تقدیر میں وینس کی رفاقت ہو گی با ادب جا کے زئیس سے یہ کہیں گے کہ حضور آپ اب خلوتِ گمنام سے باہر نکلیں دیر...
  4. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی گواہی ۔ مصطفیٰ زیدی

    گواہی خدا کی قسم جو کہوں گا فقط سچ کہوں گا کٹہرے کے پیچھے یہ انسان دراصل اک بھیڑیا ہے بہت ہم نے اس کو سمجھایا ، حقیقیت کا رستہ دکھایا ہر اک رنگ سے راستی پر بلایا مگر یہ نہ آیا یہاں تک کہ اک روز جب رات دن سے گلے مل رہی تھی ( ہوا چل رہی تھی ، کلی کھل رہی تھی ) میں اک چیخ سن کر کنوئیں پر جو...
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی زخمِ سفر ۔ مصطفیٰ زیدی

    زخمِ سفر ہزار راہِ مُغیلاں ہے کارواں کے لِیے لہو کا رنگ ہے تزئین ِ داستاں کے لِیے قدم قدم پہ بڑی سختیاں ہیں جاں کے لِیے کئی فریب کے عشِوے ہیں امتحاں کے لِیے زمانہ یوں تو ہر اِک پر نظر نہیں کرتا قلم کی بے ادبی درگزر نہیں کرتا قلم میں لرزش ِ مژگاں ، قلم میں رِشتۂ جاں قَلم میں زمزمہ و رَم ، قلم...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بہت بڑھنے لگے تھے دعویِ دیر و حَرَم لوگ ۔ مصطفیٰ زیدی

    بہت بڑھنے لگے تھے دعویِ دیر و حَرَم لوگو غنیمت ہیں ہمارے شہر میں اس کے قَدم لوگو ! کبھی دیکھا ہے اس صُورت کا کوئی آدمی تم نے بزرگو ، ناصحو ، عَالی مقَامو ، محترم لوگو ! جِسے کل تک حیا سے بات کرنا بھی نہ آتا تھا ذرا ہم بھی تو دیکھیں اس کا اندازِ سِتَم لوگو ! گزرنے کو تو ہم پر تم سے نازک وقت...
  7. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کردار (ایک کردار) ۔ مصطفیٰ زیدی

    کردار خیال و خواب کی دنیا کے دل شکستہ دوست تری حیات مری زندگی کا خاکہ ہے غمِ نگار و غمِ کائنات کے ہاتوں ! ترے لبوں پہ خموشی ہے،مجھ کو سَکتہ ہے مری وفا بھی ہے زخمی تری وفا کی طرح یہ دل مگر وہی اک تابناک شعلہ ہے ترا مزار ہے اینٹوں کا ایک نقشِ بلند مرا مزار مرا دل ہے ، میرا چہرہ ہے جو زہر پی...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دلِ رُسوا ۔ مصطفیٰ زیدی

    دلِ رُسوا وہی اک ہمدمِ دیرینہ رہا اپنا رفیق جس کو ہم سوختہ تن، آبلہ پا کہتے تھے جس کو اغیار سے حاصل ہوئی فقروں کی صلیب شہر کے کتنے ہی کوچوں سے اٹھا اس کا جلوس کتنے اخباروں نے تصویر اتاری اس کی اس کے درشن سے بنا کوئی رشی، کوئی ادیب اگلے وقتوں سے یہی رسم چلی آتی ہے ہم نے چاہا تھا کہ دنیا کا مقدر...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ماہیت ۔ مصطفیٰ زیدی

    ماہیت میں سوچتا تھا کہ بڑھتے ہوئے اندھیروں میں افق کی موج پہ ابھرا ہوا ہلال ہو تم تصورات میں تم نے کنول جلائے ہیں وفا کاروپ ہو احساس کا جمال ہو تم کسی کا خواب میں نکھرا ہؤا تبسم ہو کسی کا پیار سے آیا ہوا خیال ہو تم مگر یہ آج زمانے نے کر دیا ثابت معاشیات کا سیدھا سا اک سوال ہو تم (مصطفیٰ زیدی...
  10. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اپنے مرحوم بھائی مجتبیٰ زیدی کے نام ۔ مصطفیٰ زیدی

    اپنے مرحوم بھائی مجتبیٰ زیدی کے نام تم کہاں رہتے ہو اے ہم سے بچھڑنے والو! ہم تمھیں ڈھونڈنے جائیں تو ملو گے کہ نہیں ماں کی ویران نگاہوں کی طرف دیکھو گے؟ بھائی آواز اگر دے تو سُنو گے کہ نہیں دشتِ غربت کے بھلے دن سے بھی جی ڈرتا ہے کہ وہاں کوئی نہ مونس نہ سہارا ہوگا ہم کہاں جشن میں شامل تھے جو کچھ...
  11. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی فرار ۔ مصطفیٰ زیدی

    فرار اِس سے پہلے کہ خرابات کا دروازہ گرے رقص تھم جائے ، اداؤں کے خزانے لُٹ جائیں وقت کا درد ، نگاہوں کی تھکن ، ذہن کا بوجھ نغمہ و ساغر و اِلہام کا رُتبہ پا لے کونپلیں دُھوپ سے اک قطرۂ شبنم مانگیں سنگساری کا سزاوار ہو بلّور کا جِسم دِل کے اُجڑے ہوئے مندر میں وفا کی مِشعل مصلحت کیشیِ طُوفان...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی گناہ گار ۔ مصطفیٰ زیدی

    گناہ گار اے سوگوار! یاد بھی ہے تجھ کو یا نہیں وہ رات، جب حیات کی زلفیں دراز تھیں جب روشنی کے نرم کنول تھے بجھے بجھے جب ساعتِ ابَد کی لویں نیم باز تھیں جب ساری زندگی کی عبادت گذاریاں تیری گناہ گار نظر کا جواز تھیں اک ڈوبتے ہوئے نے کسی کو بچا لیا اک تیرہ زندگی نے کسی کو نگاہ دی ہر لمحہ اپنی آگ...
  13. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ایک گمنام سپاہی کی قبر پر ۔ مصطفیٰ زیدی

    ایک گمنام سپاہی کی قبر پر تیری محراب پہ اے عصرِ کہن کی تاریخ صرف گوتم کے حسیں بت کا تبسم کیوں ہے کس ليے کیل سے لٹکی ہے فقط ایک صلیب ایک زنجیر کے حلقے کا ترنم کیوں ہے ایک ارسطو سے ہے کیوں گوشۂ دانش پرُ نور ایک سقراط کے سینے کا تلاطم کیوں ہے اسی محراب کے سائے میں کئی ابنِ علی کئی خونخوار یزیدوں...
  14. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ساری محفل لطفِ بیاں پر جُھوم رہی ہے ۔ مصطفیٰ زیدی

    ساری محفل لطفِ بیاں پر جُھوم رہی ہے دِل میں ہے جو شہرِ خموشاں کِس سے کہیے ساعت ِ گُل کے دیکھنے والے آئے ہُوئے ہیں شبنم تیرا گریۂ پنہاں کِس سے کہیے شام سے زخموں کی دُوکان سجائی ہوئی ہے اپنا یہ انداز چراغاں کِس سے کہیے اَوج ِ فضا پر تیز ہوا کا دم گُھٹتا ہے وُسعت وُسعت تنگیِ زِنداں کِس سے کہیے...
  15. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ہم کافروں کی مشقِ سخن ہائے گُفتَنی ۔ مصطفیٰ زیدی

    ہم کافروں کی مشقِ سخن ہائے گُفتَنی اُس مرحلے پہ آئی کہ اِلہام ہو گئی دُنیا کی بےاُصول عداوت تو دیکھیے ہم بُوالہوس بنے تو وفا عام ہو گئی کل رات، اُس کے اَور مِرے ہونٹوں میں تیرا عکس اَیسے پڑا کہ رات تِرے نام ہو گئی (مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی رہ و رسمِ آشنائی ۔ مصطفیٰ زیدی

    رہ و رسمِ آشنائی زمیں نئی تھی فلک نا شناس تھا جب ہم تری گلی سے نکل کر سوئے زمانہ چلے نظر جھکا کہ بہ اندازِ مجرمانہ چلے چلے بَجیب دریدہ، بہ دامنِ صَد چاک کہ جیسے جنسِ دل و جاں گنوا کے آئے ہیں تمام نقدِ سیادت لٹا کے آئے ہیں جہاں اک عمر کٹی تھی اسی قلمرو میں شناختوں کے لیے ہر شاہراہ نے ٹوکا ہر...
  17. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ناشناس ۔ مصطفیٰ زیدی

    ناشناس (1) کِتنے لہجوں کی کٹاریں مری گردن پہ چلیں کِتنے الفاظ کا سِیسہ مِرے کانوں میں گُھلا جس میں اِک سَمت دُھندلکا تھا اَور اِک سَمت غُبار اُس ترازو پہ مِرے درد کا سامان تُلا کم نِگاہی نے بصیرت پہ اُٹھائے نیزے جُوئے تقلید میں پیراہنِ افکار دُھلا قحط اَیسا تھا کہ برپا نہ ہوئی مجلسِ...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی " زبان ِ غیر سے کیا شرح ِ آرزو کرتے " ۔ مصطفیٰ زیدی

    " زبان ِ غیر سے کیا شرح ِ آرزو کرتے " وہ خُود اگر کہیں مِلتا تو گُفتگُو کرتے وہ زخم جِس کو کِیا نوک ِآفتاب سے چاک اُسی کو سوزَنِ مہتاب سے رفُو کرتے سوادِ دل میں لہُو کا سُراغ بھی نہ ملا کِسے اِمام بناتے کہاں وضو کرتے وہ اِک طلِسم تھا ، قُربت میں اُس کے عُمر کٹی گلے لگا کے اُسے، اُس کی...
  19. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دستور ۔ مصطفیٰ زیدی

    دستور کل رات کو محرابِ خرابات تھی روشن اشعار کے حلقے میں تھی آیات کی آمد اربابِ حکایت نے سجائی تھی ادب سے افکار کے قالین پہ اقوال کی مسند اخلاص کے رشتوں پہ چھلکتے تھے نئے جام با وضع قدیمانۂ اخلاقِ اب و جد رقصندہ و رخشندہ و تابندہ و پُرکار جوّالہ و قتّالہ و سوزندہ و سرمد ہر ذرّہ گراں مایہ...
  20. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی ۔ مصطفیٰ زیدی

    واقف نہیں اِس راز سے آشفتہ سراں بھی غم، تیشۂ فرہاد بھی، غم، سنگِ گراں بھی اُس شخص سے وابستہ خموشی بھی بیاں بھی جو نِشترِ فصّاد بھی ہے اَور رگِ جاں بھی کِس سے کہیں اُس حُسن کا افسانہ کہ جِس کو کہتے ہیں کہ ظالم ہے، تو رُکتی ہے زباں بھی ہاں یہ خمِ گردن ہے یا تابانیِ افشاں پہلو میں مِرے...
Top