مصطفیٰ زیدی یونان ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
یونان

ہم تو یہ سوچ کے آئے تھے تری گلیوں میں
کہ یہاں تیشۂ فرہاد کی قیمت ہو گی
بھائی کیوپڈ سے ملیں گے کسی دوراہے پر
کسی بے نام سے اک موڑ پہ جنت ہو گی
ہم اولمپس پہ خداؤں کی زباں بولیں گے
اپنی تقدیر میں وینس کی رفاقت ہو گی

با ادب جا کے زئیس سے یہ کہیں گے کہ حضور
آپ اب خلوتِ گمنام سے باہر نکلیں
دیر سے تشنۂ صُبحِ لب و رُخسار ہیں لوگ
آپ تاریکیِ احرام سے باہر نکلیں

پارتھینان کی مٹّی سے جو مس ہو گی نظر
ہم نے سوچا تھا کہ کُھل جائیں گے سارے اسرار
آج کل یوں نہیں ہوتا ہے مگر شاید آج
ٹُوٹ جائیں گے تمدُّن کے مہذب پِندار

اور اب شام بھی گزری کئی دن بِیت گئے
ایسے دن جن میں نہ ارماں نہ گِلے ہوتے ہیں
میرا سینہ شبِ مُفلس کا وہ افسانہ ہے
جس پہ ایتھنز کے خاموش دِیے روتے ہیں
ایسی پستی کہ عمارت کا گماں بھی دھوکا
جانے ہم کور نظر ہیں کہ خُدا سوتے ہیں

(مصطفیٰ زیدی)

شہرِ آزر
 
Top