مصطفیٰ زیدی ایک گمنام سپاہی کی قبر پر ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
ایک گمنام سپاہی کی قبر پر

تیری محراب پہ اے عصرِ کہن کی تاریخ
صرف گوتم کے حسیں بت کا تبسم کیوں ہے
کس ليے کیل سے لٹکی ہے فقط ایک صلیب
ایک زنجیر کے حلقے کا ترنم کیوں ہے
ایک ارسطو سے ہے کیوں گوشۂ دانش پرُ نور
ایک سقراط کے سینے کا تلاطم کیوں ہے

اسی محراب کے سائے میں کئی ابنِ علی
کئی خونخوار یزیدوں سے رہے گرمِ ستیز
تیرے مسلک میں ہوئی نام و نسب کی توقیر
تیرا ہیرو کوئی خسرو ہے تو کو ئی پرویز
تو نے اقوام کے انبوہ میں وہ لوگ چنے
جن میں سے کوئی جہانگیر ہے کوئی چنگیز

تجھ سے ممکن ہو تو اے ناقدِ ایامِ کہن
اپنے گمنام خزانوں کو اٹھا کر رکھ لے
رات بے نام شہیدوں کے ليے روتی ہے
ان شہیدوں کا لہو دل سے لگا کر رکھ لے
ماؤں کے میلے دوپٹوں میں ہیں جو آنسو جذب
ان کو آنکھوں کے چراغوں میں سجا کر رکھ لے

ہو گئے راکھ جو پر ، چُن انہیں خاکستر سے
سرخیِ جرأتِ پرو انہ بنے یا نہ بنے
عام شکلوں میں بھی ہے عارضِ سلمیٰ کا جمال
ان کو بھی دیکھ، صنم خانہ بنے یا نہ بنے
زیست کے جو ہرِ نایاب کی تشہیر تو کر
اس کی تشہیر سے افسانہ بنے یا نہ بنے

(مصطفیٰ زیدی)​
 
آخری تدوین:
Top