مصطفیٰ زیدی ناشناس ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
ناشناس
(1)
کِتنے لہجوں کی کٹاریں مری گردن پہ چلیں
کِتنے الفاظ کا سِیسہ مِرے کانوں میں گُھلا

جس میں اِک سَمت دُھندلکا تھا اَور اِک سَمت غُبار
اُس ترازو پہ مِرے درد کا سامان تُلا

کم نِگاہی نے بصیرت پہ اُٹھائے نیزے
جُوئے تقلید میں پیراہنِ افکار دُھلا

قحط اَیسا تھا کہ برپا نہ ہوئی مجلسِ عشق
حَبس ایسا تھا کہ تحقیق کا پرچم نہ کُھلا

کون سے دیس میں رہتے ہیں وُہ مونِس جن کی
روز اِک بات سُناتے تھے سُنانے والے

ٹھوکروں میں ہے مَتاع ِ دل ِویراں کب سے
کیا ہُوئے غم کو سرآنکھوں پہ بِٹھانے والے

رات سُنسان ہے ، بےنُور سِتارے مدّھم
کیا ہُوئے راہ میں پلکوں کو بچھانے والے

اَب تو وُہ دن بھی نہیں ہیں کہ مرے نام کے ساتھ
آپ کا نام بھی لیتے تھے زمانے والے

(2)
اہلِ منزل کی مسافر پہ یہ ترچھی نظریں
میزباں کی سوئے مہماں یہ نگاہِ اکراہ

الحذر خون بہاتے ہوئے آدابِ کرخت
الاماں تیر چلاتے ہوئے اخلاقِ سیاہ

یہ خط و خال سے چھنتی ہوئی نفرت کی شعاع
جی جبینوں کی لکیروں سے ابلتی ہوئی ڈاہ

شہر کے زلزلہ بر دوش گلی کوچوں میں
یہ کڑکتے ہوئے لہجے، یہ جگر سوز نگاہ

اُس ترازو میں بٹھایا ہے فلک نے مجھ کو
جس میں تُلتے ہیں حریفانِ تمدّن کے گناہ

آدمیت کا یہ فقدان کہ دیکھا نہ سنا
اجنبیت کا یہ قاموس کہ ملتی نہیں تھاہ

نہ وہ رم جھم نہ وہ پُروا، نہ وہ کوئی لبِ جُو
رخِ گردوں پہ دھواں ہے، لبِ گیتی پہ کراہ

میرے ہم راز، مرے ناز اٹھانے والے
کون سے دیس میں ہیں کوئی بتا دے للہ

اُف یہ طوفان، یہ گرداب، یہ پچھیاؤ، یہ رات
کس طرف ہیں مری کشتی کے پرانے ملاح

تند جذبات کا پھیلاؤ، الٰہی توبہ
سخت الفاظ کا پتھراؤ، عیاذاً باللہ

(مصطفیٰ زیدی)
قبائے ساز
 
آخری تدوین:
Top