مصطفیٰ زیدی

  1. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اُسے چھو سکی نہ ظلمت، نہ ضیائے ماہ و انجم ۔ مصطفیٰ زیدی

    اُسے چھو سکی نہ ظلمت، نہ ضیائے ماہ و انجم مگر اے اُداس شاعر ترا سرمدی ترنّم مری نوبہار رُک جا، مری غم گسار رک جا ابھی سخت ہے اندھیرا، ابھی تیز ہے تلاطُم مجھے کیا خبر تھی اس کی کہ کسی کو دیکھتے ہی مرا ساتھ چھوڑ دے گا، مرا بے وفا تبسّم مرے ہونٹ جل رہے تھے، مرا دل سلگ رہا تھا وہ سلام کر رہی تھی،...
  2. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی یہ ایک بات کہ اُس بُت کی ہمسری بھی نہیں ۔ مصطفیٰ زیدی

    غزل یہ ایک بات کہ اُس بُت کی ہمسری بھی نہیں مبالغہ بھی نہیں، محض شاعری بھی نہیں ہم عاشقوں میں جو اک رسم ہے مروّت کی تمھارے شہر میں از راہِ دلبری بھی نہیں یہاں ہم اپنی تمنّا کے زخم کیا بیچیں؟ یہاں تو کوئی ستاروں کا جوہری بھی نہیں کسی کا قُرب جو ملتا تو شعر کیوں کہتے فسردہ حالیِ اربابِ فن بُری...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی گریہ تو اکثر رہا، پَیہم رہا ۔ مصطفیٰ زیدی کی غزل میر تقی میر کی زمین میں

    میر تقی میر کی زمین میں مصطفیٰ زیدی کی ایک غزل گریہ تو اکثر رہا، پَیہم رہا پھر بھی دل کے بوجھ سے کچھ کم رہا قمقمے جلتے رہے ، بُجھتے رہے رات بھر سینے میں اک عالم رہا اُس وفا دشمن سے چُھٹ جانے کے بعد خود کو پا لینے کا کِتنا غم رہا اپنی حالت پر ہنسی بھی آئی تھی اِس ہنسی کا بھی بڑا ماتم رہا...
  4. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی پہلے تو غمِ دل میں تھے خرد سے بیگانے ۔ مصطفیٰ زیدی

    پہلے تو غمِ دل میں، تھے خرد سے بیگانے ہم کو کون سا غم ہے، آج کل خدا جانے آج اہلِ زنداں نے رت جگا منایا ہے آج شہر والوں پر، ہنس رہے ہیں دیوانے ضبط اے دلِ بے تاب، دوسروں کی محفل ہے لوگ اس کی پلکوں میں، ڈھونڈ لیں گے افسانے جب کبھی ستاروں کا کوئی نامہ بر آیا میرے در پہ دستک دی، بار بار دنیا نے...
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اُدھر اسی سے تقاضائے گرمیِ محفِل ۔ مصطفیٰ زیدی

    اُدھر اسی سے تقاضائے گرمیِ محفِل اِدھر جگر کا یہ عالم کہ جیسے برف کی سِل نہ جانے کون سی عجلت تھی اے تصّوُرِ دوست ابد کا لمحہ بھی مشکل سے ہو سکا شامِل ہم اپنے پاسِ روایاتِ عاشقی میں رہے ہمارے پاس سے ہو کر گزر گیا محمِل ابھی اُمنگ میں تھوڑا سا خُون باقی ہَے نچوڑ لے غمِ دنیا، نچوڑ لے غمِ دل...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی لوگوں کی ملامت بھی ہے ، خود دردِ سری بھی ۔ مصطفیٰ زیدی

    لوگوں کی ملامت بھی ہے ، خود دردِ سری بھی کِس کام کی یہ اپنی وسیع النّظری بھی کیا جانیے کیوں سُست تھی کل ذہن کی رفتار ممکن ہُوئی تاروں سے مری ہم سفری بھی راتوں کو کلی بن کے چٹکتا تھا ترا جِسم دھوکے میں چلی آئی نسیمِ سحری بھی کِس عشق کو اس معرکۂ دل میں ہوئی جِیت اک چِیز ہے لیکن یہ مری بے جِگری...
  7. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کربلا ۔ مصطفیٰ زیدی

    کربلا کربلا، میں تو گنہگار ہوں لیکن وہ لوگ جن کو حاصل ہے سعادت تری فرزندی کی جسم سے، روح سے، احساس سے عاری کیوں ہیں اِن کی مسمار جبیں، ان کے شکستہ تیور گردشِ حسنِ شب و روز پہ بھاری کیوں ہیں تیری قبروں کے مجاور، ترے منبر کے خطیب فلس و دینار و توجّہ کے بھکاری کیوں ہیں؟ روضۂ شاہِ شہیداں پہ اک...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی یہ ایک نام ۔ مصطفیٰ زیدی

    یہ ایک نام شفق سے دُور ، ستاروں کی شاہراہ سے دُور اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے فضا میں جیسے فرشتوں کے نرم پَر کُھل جائیں دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دُھل جائیں یہ بولتی ہُوئی شب ، یہ مُہِیب سناٹا کہ جیسے تُند گناہوں کے سیکڑوں عفرِیت بس ایک...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی پرستیدم، شِکستم۔۔۔ مصطفیٰ زیدی

    پرستیدم، شِکستم۔۔۔ پہلے مرے گیتوں میں سرمئی نقابیں تھیں چمپئی تبسُم تھے ! پہلے میرے نغموں پر جُھومتی ہُوئی کلیاں آنکھ کھول دیتی تھیں انقلاب کی لَے پر میری نظم بڑھتی تھی جیسے ریل کے پہیے پٹریوں کے لوہے پر فن کے گیت گاتے ہوں میری نظم کے پیچھے زندگی کی دھڑکن تھی ماسکو کے گنبد تھے چین کی چٹانیں...
  10. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی عدالت (نظم)۔ مصطفیٰ زیدی

    عدالت خدائے قُدّوس کی بُزرگ اور عظیم پلکیں زمیں کے چہرے پہ جُھک گئی ہَیں زمین کی دُخترِ سعید اپنے آنسوؤں اور ہچکیوں میں شفیق ، ہمدرد باپ کی بارگاہ کا اک ستُون تھامے گُنہ کا اقرار کر رہی ہے ترے فرشتے ۔۔۔۔۔۔۔ ترے فرشتے کہ جن کی قسمت میں محض تسبیح و نَے نوازی نہ سوزِ فطرت نہ دل گُدازی یہ وُہ ہیں...
  11. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کراہتے ہوئے دِل ۔ مصطفیٰ زیدی

    کراہتے ہوئے دِل مَیں اسپتال کے بستر پہ تم سے اتنی دُور یہ سوچتا ہُوں کہ ایسی عجیب دُنیا میں نہ جانے آج کے دن کیا نہیں ہُوا ہو گا کِسی نےبڑھ کے ستارے قفس کیے ہوں گے کسی کے ہات میں مہتاب آگیا ہو گا جلائی ہوں گی کِسی کے نفَس نے قِندیلیں کِسی کی بزم میں خورشید ناچتا ہو گا کِسی کو ذہن کا...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی برف باری

    برف باری کون سنتا اس بھیا نک رات میں دل کی صدا میرے ہونٹوں پر مری فریاد جم کر رہ گئی زندگی اک بے وفا لڑکی کے وعدوں کی طرح آنسوؤں کے ساتھ آئی آنسوؤں میں بہہ گئی تم کو کیا الزام دوں پہلے ہی اپنے ذہن میں کون سی شائستگی تھی ، کون سی تنظیم تھی صُبح یوں سورج کی کرنیں پھیلتی تھیں ٹوٹ کر جیسے اک ہاری...
  13. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی احسان فراموش ۔ مصطفیٰ زیدی

    احسان فراموش جب منڈیروں پہ چاند کے ہمراہ بجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں کیا ترے واسطے نہیں ترسا اُس کا مجبور مضمحل چہرا؟ کیا ترے واسطے نہیں جاگیں؟ اُس کی بیمار رحم دل آنکھیں کیا تجھے یہ خیال ہے کہ اُسے اپنے لٹنے کا کوئی رنج نہیں اُس نے دیکھی ہے دن کی خونخواری اس پہ گزری ہے شب کی عیّاری پھر بھی...
  14. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی پاگل خانہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    پاگل خانہ ہر طرف چاکِ گریباں کے تماشائی ہیں ہر طرف غولِ بیاباں کی بھیانک شکلیں ہم پہ ہنسنے کی تمنا میں نکل آئی ہیں چند لمحوں کی پر اسرار رہائش کے لیے عقل والے لبِ مسرور کی دولت لے کر دور سے آئے ہیں اشکوں کی نمائش کے لیے عقل کو زہر ہے وہ بات جو معمول نہیں عقل والوں کے گھرانوں میں پیمبر کے لیے...
  15. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی دو راہہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    دو راہہ جاگ اے نرم نگاہی کے پراسرار سکوت آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے جو خود اپنے ہی سلا سل میں گرفتار رہے اُن خداؤں سے مرے غم کی دوا کیا ہوگی سوچتے سوچتے تھک جائیں گے نیلے ساگر جاگتے جاگتے سو جائے گا مدھم آکاش اِس اچھلتی ہوئ شبنم کا ذرا سا قطرہ کسی معصوم سے رخسار پہ جم جائے گا ایک تارا...
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی جدائی ۔ مصطفیٰ زیدی

    جُدائی نگار ِ شام غم مَیں تجھ سے رخصت ہونے آیا ہُوں گلے مِل لے کہ یوں مِلنے کی نوبت پھر نہ آئے گی سر ِ راہے جو ہم دونوں کہیں مل بھی گئے تو کیا یہ لمحے پِھر نہ لَوٹیں گے یہ ساعت پھر نہ آئے گی جَرس کی نغمگی آواز ِ ماتم ہوتی جاتی ہَے غضب کی تِیرگی ہَے راستہ دیکھا نہیں جاتا یہ مَوجوں کا تلاطُم یہ...
  17. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی فراق ۔ مصطفیٰ زیدی

    فراق ہم نے جِس طرح سبُو توڑا ہے ۔۔۔ ہم جانتے ہیں دلِ پُر خُوں کی مئے ناب کا قطرہ قطرہ جُوئے الماس تھا، دریائے شب ِنیساں تھا ایک اک بُوند کے دامن میں تھی موجِ کوثر ایک اک عکس حدیثِ حَرَم ِ اِیماں تھا ایک ہی راہ پہنچتی تھی تَجلّی کے حضُور ہم نے اُس راہ سے مُنھ موڑا ہے ۔۔۔ ہم جانتے ہیں ماہ پاروں...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اندوہِ وفا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اندوہِ وفا آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے جِس سے اُس شہر کے پھولوں کی مَہک آتی تھی آج وہ نکہتِ آسودہ لُٹا دی ہم نے عقل جِس قصر میں اِنصاف کیا کرتی ہے آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے آگ کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہوا کرب...
  19. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ہم لوگ ۔ مصطفیٰ زیدی

    ہم لوگ آؤ اُس یاد کو سِینے سے لگا کر سو جائیں آؤ سوچیں کہ بس اک ہم ہی نہیں تِیرہ نصِیب اپنے ایسے کئی آشفتہ جِگر اَور بھی ہیں ایک بے نام تھکن ، ایک پْر اسرار کَسک دل پہ وُہ بوجھ کہ بْھولے سے بھی پْوچھے جو کوئی آنکھ سے جلتی ہوئی رُوح کا لاوا بہہ جائے چارہ سازی کے ہر انداز کا گہرا نِشتر غم گُساری...
  20. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اعتراف ۔ مصطفیٰ زیدی

    اعتراف ترے کرم نے مجهے کر لیا قبول مگر مرے جنوں سے محبت کا حق اَدا نہ ہوا ترے غموں نے مرے ہر نشاط کو سمجھا مرا نشاط ترے غم سے آشنا نہ ہوا کہاں کہاں نہ میرے پاؤں لڑ کهڑائے مگر ترا ثبات عجب تها کہ حادثہ نہ ہوا ہزار دشنہ و خنجر تهے میرے لہجے میں تری زباں پہ کبهی حرفِ ناروا نہ ہوا ترا کرم جو...
Top