مصطفیٰ زیدی لوگوں کی ملامت بھی ہے ، خود دردِ سری بھی ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
لوگوں کی ملامت بھی ہے ، خود دردِ سری بھی
کِس کام کی یہ اپنی وسیع النّظری بھی

کیا جانیے کیوں سُست تھی کل ذہن کی رفتار
ممکن ہُوئی تاروں سے مری ہم سفری بھی

راتوں کو کلی بن کے چٹکتا تھا ترا جِسم
دھوکے میں چلی آئی نسیمِ سحری بھی

کِس عشق کو اس معرکۂ دل میں ہوئی جِیت
اک چِیز ہے لیکن یہ مری بے جِگری بھی

خود اپنے شب و روز گزر جائیں گے لیکن
شامِل ہے مرے غم میں تری دربَدَری بھی

فرقت کے شب و روز میں کیا کچھ نہیں ہوتا
قُدرت پہ ملامت بھی، دُعائے سحری بھی

اک فرد کی اُلفت تو بڑی کم نظری ہے
ہے کس میں مگر اہلیتِ کم نظری بھی

مصطفیٰ زیدی از شہرِ آزر​
 
Top