مصطفیٰ زیدی وہاں میں نے رُودادِ غم ڈھونڈ لی ہے، جہاں نالۂ مختصر بھی نہیں تھا ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
وہاں میں نے رُودادِ غم ڈھونڈ لی ہے، جہاں نالۂ مختصر بھی نہیں تھا
میں ایسے افق چھو کے آیا ہوں جن پر تخیّل کو اذنِ سفر بھی نہیں تھا

پس و پیش یوں میرے قدموں کی آہٹ کو اب اجنبی آنکھ سے دیکھتے ہیں
کہ جیسے یہ وہ راہ ہے جس پہ کوئی مرے پیار کا منتظر بھی نہیں تھا

یہ سچ ہے کہ ان آنسوؤں کی چمک میں وہ راتیں وہ صبحیں ابھرتی رہی ہیں
شب و روز کا یہ چراغ مگر اک تری یاد پر منحصر بھی نہیں تھا

ترے شہر کے اور بھی واقعے ہیں ترے پیار کی الجھنوں کے علاوہ
وہاں وضعداری کی بات آ گئی تھی جہاں چار تنکوں کا گھر بھی نہیں تھا

مجھے سوزِ دل کی اجازت عطا کر، نہیں تو زمانہ ہمیشہ کہے گا
نگارہِ سحر تیرے ماتھے کی بندی میں تھوڑا سا خونِ جگر بھی نہیں تھا

اسی روز مرّہ کی دنیا میں ہم ایسے کچھ رند بھی تھے کہ جن کے جہاں میں
کچھ افواہِ سود و زیاں بھی نہیں تھی، کچھ اندیشۂ بام و در بھی نہیں تھا

زمانہ بدستور ہنستار رہے گا، زمیں حسبِ معمول جلتی رہے گی
اکیلے سفر کا اکیلا مسافر اس انجام سے بے خبر بھی نہیں تھا

(مصطفیٰ زیدی)
 
آخری تدوین:
Top