مصطفیٰ زیدی دو راہہ ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
دو راہہ

جاگ اے نرم نگاہی کے پراسرار سکوت
آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے
جو خود اپنے ہی سلا سل میں گرفتار رہے
اُن خداؤں سے مرے غم کی دوا کیا ہوگی
سوچتے سوچتے تھک جائیں گے نیلے ساگر
جاگتے جاگتے سو جائے گا مدھم آکاش
اِس اچھلتی ہوئ شبنم کا ذرا سا قطرہ
کسی معصوم سے رخسار پہ جم جائے گا
ایک تارا نظرآئے گا کسی چلمن میں
ایک آنسو کسی بستر پہ بکھر جائےگا
ہاں مگر تیرا یہ بیمار کدھر جائے گا
میں نے اک نظم میں لکھا تھا کہ اے روحِ وفا
چارہ سازی ترے ناخن کی رہینِ منت
غم گساری تری پلکوں کی روایات میں ہے
ایک چھوٹی ہی سی امیدِ طرب زار سہی
ایک جگنو کا اجالا مری برسات میں ہے
لذتِ عارض و لب ،ساعتِ تکمیلِ وصال
میری تقدیر میں ہے اور ترے ہاتھ میں ہے

دیر سے، کعبے سے، ادراک سے بھی اکتا کر
آج تک دل کو اجالے کی طلب ہوتی ہے
ایک دن آئے گا جب اور بھی عریاں ہو کر
آدمی جینے کو تھوڑی سی ضیا مانگے گا
گیت کے، پھول کے، اشعار کے، افسانوں کے
آج تک ہم نے بنائے ہیں کھلونے کتنے
یہ کھلو نے بھی نہ ہوتے تو ہمارا بچپن
سوچتا ہوں کہ گزرتاتو گزرتا کیسے
آدمی زیست کے سیلاب سے لڑتے لڑتے
بِیچ منجھدھار میں آتا تو ابھرتا کیسے

دیر سے روح پہ اک خوابِ گراں طاری ہے
آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے
آج پھر دوشِ تمنا پہ ہے دل کا تابوت
جاگ اے نرم نگاہی کے مسیحا نہ سکوت
ورنہ انسان کی فطرت کا تلّون مت پوچھ
اِس سِن و سال کا مغرور لڑکپن مت پوچھ
آدمی تیری اس افتاد سے بددل ہو کر
اور دو چار خداؤں کے عَلم پوجے گا
اور اِک روز اس انداز سے بھی اکتا کر
اپنے بے نام خیالوں کے صنم پوجے گا

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top