مصطفیٰ زیدی رہ و رسمِ آشنائی ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
رہ و رسمِ آشنائی
زمیں نئی تھی فلک نا شناس تھا جب ہم
تری گلی سے نکل کر سوئے زمانہ چلے
نظر جھکا کہ بہ اندازِ مجرمانہ چلے
چلے بَجیب دریدہ، بہ دامنِ صَد چاک
کہ جیسے جنسِ دل و جاں گنوا کے آئے ہیں
تمام نقدِ سیادت لٹا کے آئے ہیں
جہاں اک عمر کٹی تھی اسی قلمرو میں
شناختوں کے لیے ہر شاہراہ نے ٹوکا
ہر اک نگاہ کے نیزے نے راستہ روکا
جہاں جلے تھے ترے حسنِ آتشیں کے کنول
وہاں الاؤ تو کیا راکھ کا نشاں بھی نہ تھا
چراغ کشتۂ محفل دھواں دھواں بھی نہ تھا
مسافرت نے پکارا نئے افق کی طرف
اگر وفا کی شریعت کا یہ صلہ ہوگا
نئے افق سے تعارف کے بعد کیا ہوگا

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top