میر تقی میر

  1. فرخ منظور

    میر گُل کو محبوب ہم قیاس کیا ۔ میر تقی میرؔ

    گُل کو محبوب ہم قیاس کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا دل نے ہم کو مثالِ آئینہ ایک عالم کا روشناس کیا کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن شوق نے ہم کو بے حواس کیا عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے قیس کی آبرو کا پاس کیا دَور سے چرخ کے نکل نہ سکے ضعف نے ہم کو مور طاس کیا صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے...
  2. فرخ منظور

    میر منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا ۔ میر تقی میرؔ

    منہ تکا ہی کرے ہے جِس تِس کا حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا تھے بُرے مغ بچوں کے تیور لیک شیخ مے خانہ سے بھلا کھسکا داغ آنکھوں سے کھل رہے ہیں سب ہاتھ دستہ ہوا ہے نرگس کا قطعہ بحر کم ظرف ہے بسانِ حباب کاسہ لیس اب ہوا ہے تُو جس کا فیض اے ابر، چشمِ تر...
  3. فرخ منظور

    میر غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا ۔ میر تقی میر

    غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا جس دم...
  4. فرخ منظور

    میر چندے بجا ہے گریۂ اندوہ و آہ کر ۔ میر تقی میر

    چندے بجا ہے گریۂ اندوہ و آہ کر ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر کیا دیکھتا ہے ہر گھڑی اپنی ہی دھج کو شوخ آنکھوں میں جان آئی ہے ایدھر نگاہ کر رحمت اگر یقینی ہے تو کیا ہے زہد، شیخ اے بے وقوف جائے عبادت، گناہ کر چھوڑ اب طریقِ جور کو اے بیوفا سمجھ نبھتی نہیں یہ چال کسو دل میں راہ کی چسپیدگیِ داغ...
  5. فرخ منظور

    میر لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں ۔ میر تقی میر

    لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں سینہ سپر کیا تھا، جن کے لیے بلا کا وے بات بات میں اب تلوار کھینچتے ہیں مجلس میں تیری ہم کو کب غیر خوش لگے ہے ہم بیچ اپنے اس کے دیوار کھینچتے ہیں بے طاقتی نے ہم کو چاروں طرف سے کھویا تصدیع گھر میں بیٹھے ناچار کھینچتے ہیں...
  6. فرخ منظور

    میر جان ہے تو جہان ہے پیارے ۔ میر تقی میر

    میر عمداً َ بھی کوئی مرتا ہے جان ہے تو جہان ہے پیارے مکمل غزل قصد گر امتحان ہے پیارے اب تلک نیم جان ہے پیارے سجدہ کرنے میں سر کٹیں ہیں جہاں سو ترا آستان ہے پیارے گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر یہ ہماری زبان ہے پیارے کام میں قتل کے مرے تن دے اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے چھوڑ جاتے ہیں دل کو تیرے...
  7. فرخ منظور

    میر اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ۔ میر تقی میر

    اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُرآب روز و شب ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خوناب روز و شب اک وقت رونے کا تھا ہمیں بھی خیال سا آتے تھے آنکھوں سے چلے سیلاب روز و شب اُس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے رہتا تھا پاس وہ دُرِ نایاب روز و شب قدرت تو دیکھ عشق کی، مجھ سے ضعیف کو رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب...
  8. فرخ منظور

    میر خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ۔ میر تقی میر

    خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز آتشِ دل نہیں بجھی شاید قطرہء اشک ہے شرارہ ہنوز اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز لب پہ آئی ہے جان کب کی ہے اس کے موقوف یک اشارہ ہنوز عمر گزری دوائیں کرتے میرؔ دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز (میر تقی میرؔ)
  9. فرخ منظور

    میر ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز ۔ میر تقی میر

    ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز دن رات کو کھنچا ہے قیامت کا اور میں پھرتا ہوں منہ پہ خاک ملے، جا بجا ہنوز خط کاڑھ لا کے تم تو مُنڈا بھی چلے ولے ہوتی نہیں ہماری تمہاری صفا ہنوز غنچے چمن چمن کھلے اس باغِ دہر میں دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز احوال نامہ...
  10. فرخ منظور

    میر میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں ۔ میر تقی میر

    میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر میں ورنہ وہی خلوتیِ رازِ نہاں ہوں جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر صد رنگ مری موج ہے، میں طبعِ‌رواں ہوں پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح میں شانہ صفت سایہ روِ زلفِ بُتاں ہوں دیکھا...
  11. فرخ منظور

    میر پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ ۔ میر تقی میر

    پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں مکمل غزل مشہور ہیں دلوں کی مرے بےقراریاں جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں چہرے پہ جیسے زخم ہےناخن کا ہر خراش اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں سو بار ہم نے گُل کے کہے پر چمن کے بیچ بھر دی ہیں آبِ‌ چشم سے راتوں کو...
  12. فرخ منظور

    میر زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں ۔ میر تقی میر

    زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں نہ کھول اے یار! میرا گور میں منھ کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں رکھا کر ہاتھ دل پر، آہ کرتے نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں جلے دل کی مصیبت اپنی سن کر لگی ہے آگ سارے تن بدن میں نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی مسافر ہی رہے اکثروطن میں...
  13. فرخ منظور

    میر آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں ۔ میر تقی میر

    آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں حاصل ہے کیا سوائے ترائی کے دہر میں اُٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں مائل بغیر ہونا تجھ ابرو کا عیب ہے تھی زور یہ کماں ولے خم چم بہت ہے یاں ہم...
  14. فاتح

    میر دلی کے نہ تھے کوچے، اوراق مصور تھے ۔ میر تقی میر

    کچھ موجِ ہوا پیچاں، اے میر! نظر آئی شاید کہ بہار آئی، زنجیر نظر آئی دلّی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصوّر تھے جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی مغرور بہت تھے ہم، آنسو کی سرایت پر سو صبح کے ہونے کو تاثیر نظر آئی گل بار کرے ہے گا اسبابِ سفر شاید غنچے کی طرح بلبل دل گیر نظر آئی اس کی تو دل آزاری بے...
  15. طارق شاہ

    میر :::: کیا بُلبُلِ اسیر ہے بے بال و پر ، کہ ہم :::: Meer Taqi Meer

    غزل میر تقی میر کیا بُلبُلِ اسیر ہے بے بال و پر ، کہ ہم گُل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اِس قدر ، کہ ہم خورشید صُبْح نِکلے ہے اِس نُور سے کہ تُو شبنم گِرہ میں رکھتی ہے یہ ، چشمِ تر! کہ ہم جیتے ہیں تو دِکھاویں گے ، دعوائے عندلیب ! گُل بِن خِزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر ، کہ ہم یہ تیغ ہے، یہ طشت...
  16. م

    میر زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت

    زخم جھیلے داغ بھی کھائے بہت دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت جب نہ تب جاگہ سے تم جایا کیے ہم تو اپنی اور سے آئے بہت دیر سے سوئے حرم آیا نہ ٹک ہم مزاج اپنا ادھر لائے بہت پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے پر ہمیں ان میں تمہی بھائے بہت گر بکا اِس شور سے شب کو ہے تو روویں گے سونے کو ہمسائے بہت وہ جو نکلا صبح...
  17. عؔلی خان

    ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا - (غزل گو: جسوندر سنگھ)

    ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا × آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا یہ نشانِ عشق ہیں، جاتے نہیں داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا نیند اب تیرے مقدر میں نہیں × رات کے پچھلے پہر سوتا ہے کیا × گر کے اُٹھنا، اُٹھ کے چلنا سیکھ لے × پاکےمنزل اس طرح ہوتا ہےکیا × × یہ مصرعہ اور اشعار کم از کم مجھے تو میر تقی...
  18. فاتح

    میر میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی ۔ میر تقی میر

    محمد وارث صاحب نے لفظ اللہ کے وزن کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی مشہور زمانہ غزل وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ" کا حوالہ دیا کہ اس غزل میں "اللہ اللہ" کو کس وزن پر باندھا گیا ہے تو ہمارے ذہن میں میر تقی میر کی اس غزل کا مصرع آ گیا کہ اس میں میر نے "اللہ اللہ" کو...
  19. فرخ منظور

    میر مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا ۔ میر تقی میر

    مفت آبروئے زاہدِ علّامہ لے گیا اِک مُغ بچہ اتار کے عمّامہ لے گیا داغِ فراق و حسرتِ وصل، آرزوئے شوق میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا پہنچا نہ پہنچا، آہ گیا، سو گیا غریب وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا اس راہ زن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ اِک مرتبہ جو میر کا جی جامہ لے گیا (میر تقی میر)
  20. مدیحہ گیلانی

    میر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے ۔۔۔ میر تقی میر

    دہر بھی میرؔ طُرفہ مقتل ہے جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے کثرتِ غم سے دل لگا رُکنے حضرتِ دل میں آج دنگل ہے روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں لیکن اب تک تو روزِ اوّل ہے چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو دل ہے یا خانۂ مقفل ہے سینہ چاکی بھی کام رکھتی...
Top