میر تقی میر

  1. طارق شاہ

    میر مِیر تقی مِیؔر :::::: غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے:::::: Mir Taqi Mir

    غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی! اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ! جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے ایسا نہ ہو ،...
  2. غدیر زھرا

    میر ربطِ دل زلف سے اس کی جو نہ چسپاں ہوتا

    ربطِ دل زلف سے اس کی جو نہ چسپاں ہوتا اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلا کے نہ ہم اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا میری زنجیر کی جھنکار نہ کوئی سنتا شورِ مجنوں نہ اگر سلسلہ جنباں ہوتا ہر سَحر آئنہ، رہتا ہے تِرا منھ تکتا دل کی تقلید نہ کرتا تو نہ حیراں ہوتا وصل کے...
  3. فرخ منظور

    میر نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا ۔ میر تقی میر

    نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا رہِ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا رہوں ہوں برسوں سے ہم دوش پر کبھو اُن نے گلے میں ہاتھ مرا پیار سے نہ ڈال لیا بتاں کی میرؔ ستم وہ نگاہ ہے جس نے خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال لیا (میر...
  4. محمد تابش صدیقی

    میر کیا میں نے رو کر فشارِ گریباں

    کیا میں نے رو کر فشارِ گریباں رگِ ابر تھا تار تارِ گریباں کہیں دستِ چالاک ناخن نہ لاگے کہ سینہ ہے قرب و جوارِ گریباں نشاں اشکِ خونیں کے اڑتے چلے ہیں خزاں ہو چلی ہے بہارِ گریباں جنوں تیری منت ہے مجھ پر کہ تو نے نہ رکھا مرے سر پہ بارِ گریباں زیارت کروں دل سے خستہ جگر کی کہاں ہو گی یارب...
  5. طارق شاہ

    میر مِیر تقی مِیؔر ::::::دیکھی تھی تیرے کان کے موتی کی اِک جھلک :::::: Mir Taqi Mir

    غزل مِیر تقی مِیؔر دیکھی تھی تیرے کان کے موتی کی اِک جھلک جاتی نہیں ہے اشک کی رُخسار کے ڈھلک یارب اِک اِشتیاق نِکلتا ہے چال سے ملتے پھریں ہیں خاک میں کِس کے لیے فلک طاقت ہو جس کے دل میں، وہ دو چار دن رہے! ہم ناتوانِ عشق تمھارے، کہاں تلک برسوں ہُوئے، کہ جان سے جاتی نہیں خلش ٹک ہل گئی تھی...
  6. غدیر زھرا

    میر نظم بطرزِ منقبتِ حضرت امام حسین علیہ السلام

    اللہ کیا جگر تھا جفا میں حسین کا جی ہی گیا ندان رضا میں حسین کا اس تشنہ لب کا عرش سے برتر ہے مرتبہ خوں تھا سبیل راہِ خدا میں حسین کا (میر تقی میر)
  7. نیرنگ خیال

    میر آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ

    آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ میں بے دماغ عشق اٹھا سو چلا گیا بلبل پکارتی ہی رہی گلستاں کے بیچ تحریک چلنے کی ہے جو دیکھو نگاہ کر ہیئت کو اپنی موجوں میں آب رواں کے بیچ کیا میل ہو ہما کی پس از مرگ میری اور ہے جائے گیر عشق کی تب اُستخواں کے بیچ کیا...
  8. غدیر زھرا

    میر دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی

    دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی واشُد کُچھ آگے آہ سی ہوتی تھی دِل کے تئیں اقلیمِ عاشقی کی ہوا، اب بگڑ گئی گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیئے صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی باہم...
  9. طارق شاہ

    قائم چاندپُوری :::::: شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا :::::: Qayem Chandpuri

    غزل قائؔم چاندپُوری شب جو دِل بیقرار تھا، کیا تھا اُس کا پِھر اِنتظار تھا، کیا تھا چشم، در پر تھی صبح تک شاید ! کُچھ کسی سے قرار تھا، کیا تھا مُدّتِ عُمر، جس کا نام ہے آہ ! برق تھی یا شرار تھا ،کیا تھا دیکھ کر مجھ کو، جو بزم سے تُو اُٹھا ! کُچھ تجھے مجھ سے عار تھا ، کیا تھا پِھر گئی وہ...
  10. محمد تابش صدیقی

    میر کیا پیام و سلام ہے موقوف

    کیا پیام و سلام ہے موقوف رسمِ ظاہر تمام ہے موقوف حیرتِ حسنِ یار سے چپ ہیں سب سے حرف و کلام ہے موقوف روز وعدہ ہے ملنے کا لیکن صبح موقوف شام ہے موقوف وہ نہیں ہے کہ داد لے چھوڑیں اب ترحم پہ کام ہے موقوف پیشِِ مژگاں دھرے رہے خنجر آگے زلفوں کے دام ہے موقوف کہہ کے صاحب کبھو بلاتے تھے سو وقارِ...
  11. فرخ منظور

    میر مثالِ سایہ محبت میں جال اپنا ہوں ۔ میر تقی میرؔ

    مثالِ سایہ محبت میں جال اپنا ہوں تمھارے ساتھ گرفتارِ حال اپنا ہوں سرشک ِسرخ کو جاتا ہوں جو پیے ہر دم لہو کا پیاسا علی الاتصال اپنا ہوں اگرچہ نشہ ہوں سب میں خمِ جہاں میں لیک برنگ مے عرقِ انفعال اپنا ہوں مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک میں نقشِ پا کی طرح پائمال اپنا ہوں ہوئی ہے زندگی دشوار...
  12. فرخ منظور

    میر اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر ۔ میر تقی میر

    اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر دھڑکا تھا دل طپیدنِ شب سے سو آج صبح دیکھا وہی کہ آنسوؤں میں چو پڑا جگر ہم تو اسیرِ کنج قفس ہوکے مرچلے اے اشتیاقِ سیرِ چمن تیری کیا خبر مت عیب کر جو ڈھونڈوں میں اس کو کہ مدعی یہ جی بھی یوں ہی جائے گا رہتا ہے تو کدھر...
  13. فرخ منظور

    میر ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ ۔ میر تقی میر

    ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ وہ نمک چھڑکے ہے مزا ہے یہ آگ تھے ابتداے عشق میں ہم اب جو ہیں خاک، انتہا ہے یہ بودِ آدم نمودِ شبنم ہے ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا دل سے اپنے ہمیں گلا ہے یہ شور سے اپنے حشر ہے پردہ یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ بس ہوا ناز ہو چکا اغماض ہر...
  14. فرخ منظور

    میر عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا ۔ میر تقی میرؔ

    عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا میں جو گدایانہ چلّایا در پر اس کے نصفِ شب گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا آگے عالم عین تھا اس کا اب عینِ عالم ہے وہ اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں...
  15. فرخ منظور

    میر جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش و ہوش نہ کھولے ٹک ۔ میر تقی میرؔ

    جب کہتے تھے تب تم نے تو گوش و ہوش نہ کھولے ٹک چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک اب جو چھاتی جلی فی الواقع لطف نہیں ہے شکایت کا صبر کرو کیا ہوتا ہے یوں پھوڑے دل کے پھپھولے ٹک نالہ کشی میں مرغِ چمن بکتا ہے پر ہم تب جانیں نعرہ زناں جب صبح سے آ کے ساتھ ہمارے بولے ٹک اس کی قامت موزوں...
  16. فرخ منظور

    میر چھن گیا سینہ بھی، کلیجا بھی ۔ میر تقی میر

    چھن گیا سینہ بھی، کلیجا بھی یار کے تیر، جان لے جا بھی کیوں تری موت آئی ہے گی عزیز سامنے سے مرے، ارے جا بھی حال کہہ چپ رہا تو میں بولا کس کا قصّہ تھا، ہاں کہے جا بھی قطعہ میں کہا میؔر جاں بہ لب ہے شوخ تُو نے کوئی خبر کو بھیجا بھی؟ کہنے لاگا نہ واہی بک اتنا کیا ہوا ہے سڑی؟، ابے جا بھی (میر تقی...
  17. طارق شاہ

    میر مِیر تقی مِیرؔ ::::: رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں! ::::: Mir Taqi Mir

    غزلِ میر تقی میؔر چمکی ہے جب سے برق ِسَحر گُلستاں کی اور جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں ، کہ رفتگاں مُنہ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں! رہجاتے ہیں گےدیکھ کے گُل اُس دَہاں کی اور آنکھیں سی کُھل ہی جائیں گی...
  18. طارق شاہ

    میر مِیر تقی مِیرؔ ::::: آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور::::: Mir Taqi Mir

    غزلِ میر تقی میؔر آئی ہے اُس کے کُوچے سے ہوکر صبا کُچھ اور کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہَوا کُچھ اور تدبِیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے بیماری اور کُچھ ہے، کریں ہیں دوا کُچھ اور مستان ِعِشق و اہلِ خرابات میں ہے فرق مے خوارگی کُچھ اور ہے یہ ، نشّہ تھا کُچھ اور کیا نسبت اُس کی قامتِ...
  19. فرخ منظور

    میر ہم رہنِ بادہ جامۂ احرام کرچکے ۔ میر تقی میر

    ہم رہنِ بادہ جامۂ احرام کرچکے مستی کی دیر میں قسم اقسام کر چکے جامہ ہی وجہِ مے میں ہمارا نہیں گیا دستار و رخت سب گروِ جام کرچکے زنار پہنا سبحہ کے رشتے کے تار توڑ ترک نماز و روزہ و اسلام کرچکے جپ کرنے بیٹھے مالا لیے پیش روے بت کفر اختیار کرنے میں ابرام کرچکے صندل کے قشقے دیکھ برہمن بچوں کے...
  20. فرخ منظور

    میر چمکنا برق کا کرتا ہے کارِ تیغ، ہجراں میں ۔ میر تقی میر

    چمکنا برق کا کرتا ہے کارِ تیغ، ہجراں میں برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیرِ باراں میں بھرے رہتے ہیں سارے پھول ہی جس کے گریباں میں وہ کیا جانے کہ ٹکڑے ہیں جگر کے میرے داماں میں کہیں شام و سحر رویا تھا مجنوں عشقِ لیلیٰ میں ہنوز آشوب دونوں وقت رہتا ہے بیاباں میں خیال یار میں آگے ہے یک مہ پارہ...
Top