میر تقی میر

  1. فرخ منظور

    میر چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں بہاراں ہے ۔ میر تقی میر

    چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں بہاراں ہے پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں آگے ہو مے خانے کو نکلو، عہدِ بادہ گساراں ہے عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت یعنی مصیبت ایسی اُٹھانا کارِ کار گزاراں ہے دل ہے داغ، جگر...
  2. فرخ منظور

    میر یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں ۔ میر تقی میر

    غزل یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں اِک ایک فرطِ دور میں یونہی مجھے بھی دو جامِ شراب پُر نہ کرو، میں نشے میں ہوں مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو، میں نشے میں ہوں یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانندِ جامِ مے یا تھوڑی دور...
  3. فرخ منظور

    میر عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں ۔ میر تقی میر

    غزل عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں بے کلی دل ہی کی تماشا تھی برق میں ایسے اضطراب کہاں خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے ابھی مکتوب کا جواب کہاں ہستی اپنی ہے بیچ میں پردا ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں گریہ شب سے سرخ ہیں آنکھیں مجھ بلا نوش کو شراب کہاں عشق ہے...
  4. پ

    میر اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا - میر محمد تقی – میر

    اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہم کشتگانِ عشق ہیں ابرو و چشمِ یار سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں برنگِ عمر جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل تو صبح تک تو ہاتھ بھی لگایا نہ...
  5. فرحت کیانی

    میر غزل۔ غافل ہیں ایسے، سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ۔ میر تقی میر

    غافل ہیں ایسے، سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں کس درجہ سیر چشم ہیں کوئے بتاں کے لوگ مرتے ہیں اُس کے واسطے یوں تو بہت ولے کم آشنا ہیں طَور سے اس کامِ جاں کے لوگ مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں...
  6. نوید صادق

    تشریحاتِ میر

    دوستو! یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں روز میر کے ایک شعر کی شرح اپلوڈ کر دیا کروں۔ یہ شرح شمس الرحمٰن فاروقی کی "شعر شور انگیز" سے لے رہا ہوں۔ مکمل شعرِ شور انگیز کی بجائے صرف اپنی پسند کے اشعار اور ان کی شرح پیش کروں گا۔ اسے ایک انتخاب کہا جا سکتا ہے۔
  7. پ

    میر اقتباس از مثنوی میر محمد تقی –میر

    ضبط کروں میں کب تک آہ اب - چل رے خامہ ! بسم اللہ اب کر ٹک دل کا راز نہانی - ثبت جریدہ میری زبانی یعنی ۔ میر اک خستہء غم تھا - سرتاپا اندہ و الم تھا تاب و توان و شکیب و تحمل - رخصت اس سے ہو گئے بالکل سینہ فگاری سامنے آئی - بیتابی نے طاقت پائی خواب و خورش کا نام نہ آیا - ایک گھڑی...
  8. فرخ منظور

    میر ماہِ صیام آیا، ہے قصدِ اعتکاف اب - میر

    ماہِ صیام آیا، ہے قصدِ اعتکاف اب جا بیٹھیں میکدے میں مسجد سے اُٹھ کے صاف اب مسلم ہیں رفتہ رُو کے کافر ہیں خستہ مو کے یہ بیچ سے اُٹھے گا کس طور اختلاف اب جو حرف ہیں سو ٹیڑھے خط میں لکھے ہیں شاید اُس کے مزاج میں ہے کچھ ہم سے انحراف اب مجرم ٹھہر گئے ہم پھرنے سے ساتھ تیرے بہتر ہے جو...
  9. محمد وارث

    پونے تین شاعر

    میر تقی میر سے لکھنو میں کسی نے پوچھا۔ "کیوں حضرت آج کل شاعر کون کون ہے۔" میر صاحب نے کہا۔ "ایک تو سودا ہے اور دوسرا یہ خاکسار، اور پھر کچھ تامل سے بولے، آدھے خواجہ میر درد۔" اس شخص نے کہا، "حضرت، اور میر سوز؟" میر صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا۔ "میر سوز بھی شاعر ہیں؟" اس نے کہا۔ "آخر بادشاہ...
  10. فرخ منظور

    میر الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا - میر تقی میر

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے...
  11. فرخ منظور

    میر دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے - میر تقی میر

    دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانۂ دل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے! نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے سدھ لے گھر...
  12. فرخ منظور

    میر کب تلک جی رکے خفا ہووے - از میر تقی میر

    کب تلک جی رکے خفا ہووے آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے کاہشِ دل کی کیجیے تدبیر جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے چپ کا باعث ہے بے تمنائی کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم دیکھیے اب کے سال کیا ہووے مر گئے ہم تو مر گئےتُو جیے دل گرفتہ...
  13. فرخ منظور

    میر فقیرانہ آئے صدا کرچلے - از میر تقی میر

    بہت سے لوگوں نے لتا کی آواز اور خیّام کی موسیقی میں "بازار" فلم کا یہ مشہور گانا سنا ہوگا- "دکھائی دیے یوں کہ بیخود کیا" اصل میں یہ میر تقی میر کی غزل ہے اور خیّام نے اتنی خوبصورتی سے اسے کمپوز کیا ہے کہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہ میر کی غزل ہے - میر کی یہ غزل پڑھیے اور وہ گانا یاد کیجیے-...
  14. فاتح

    آ کے سجّادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد -منور خان غافل

    کچھ دن پہلے محفل کے ایک دھاگے "کون ہے جو محفل میں آیا 9" پر مکرم وارث صاحب نے ایک مشہور زمانہ مصرع لکھا تھا "شاید آجائے کوئی آبلہ پا میرے بعد"۔ بس اسی مصرع نے مہمیز کیا مجھے میر تقی میر کے نام سے غلط طور پر منسوب وہ غزل یہاں پوسٹ کرنے پر (شاید کچھ اشعار مجھ سے چھوٹ گئے ہیں): آ کے سجّادہ نشیں...
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    انتخاب کلامِ میر دیوانِ اول میر کے پانچ اہم انتخابات کا مجموعہ انتخاب نواب عماد الملک سید مولوی عبدالحق حسرت موہانی اثر لکھنوی محمد حسن عسکری ۔۔۔۔۔۔۔۔
  16. محب علوی

    آؤ‌ کہ ذکرِ میر کریں

    میر تقی میر ایک عظیم و معتبر نام ایک ایسا نام جو کسی بھی اردو پڑھنے والے کے لیے تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ ریختہ گویان ہند کے استاد اعظم شاعرانِِ اردو کے رہبر علم، ادب اور زبان دانی کے ماہر فن، خوش گلو ، شیریں بیان شخصیت کے مالک تھے۔ غزل گوئی کی جب بات ہوگی تو ایک نام سب سے پہلے ذہن میں وارد ہوگا...
  17. رضوان

    خدائے سخن میر تقی میر

    میر تقی میر (1137ھ وفات 20 ستمبر 1810ء) میر غالبا واحد ایسا شاعر ہے کہ ناسخ ذوق اور غالب جیسے اساتذہ سے لے کر جدید دور تک کے شعرا نے رنگ میر اپنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا۔ حالانکہ اب رنگ تغزل اور معیار غزل وہ نہیں جو دو صدی قبل تھا مگر آج بھی میر اپنے بھولے بھالے...
Top